نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا، نقصان ملک کا ہوا

نواز شریف کو سیاست سے باہر کرنے کے لئے جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا، نقصان ملک کا ہوا
اسلام آباد میں منعقدہ کل جماعتی کانفرنس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے جو باتیں کیں اس میں نہ صرف ملک کی خدمت کرنے والے ایک انسان کا درد چھپا ہوا تھا بلکہ وہ باتیں ہمیں اپنے ماضی کے طرز عمل پر گہرے غور غوض کی دعوت بھی دیتی ہیں۔

پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ جب بھی یہ بد نصیب ملک ترقی کی جانب گامزن ہونے لگتا ہے تو کوئی ان دیکھی قوت اس کی ٹانگیں کھینچ لیتی ہے۔ پچھلے ستر سال سے ہم ایک ہی دائرے میں سفر کئے جا رہے ہیں لیکن منزل ہے کہ آنے کا نام ہی نہیں لیتی۔

منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

انسان خطا کا پتلا ہے لیکن ایک دولخت ملک کو جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے سنبھالا وہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن پھر اس شخص کیساتھ ہم نے کیا کیا؟ ڈاکٹر عبدالقدیرخان بجا طور پر محسن پاکستان کہلاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ ہمارا سلوک کیا مجرمانہ اور شرمناک نہیں رہا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو پاکستان کی عوام سے چھین لیا گیا۔ اپنے تین ادوار میں نواز شریف نے جو کام کئے وہ ملک کے طول و عرض میں نظر آ رہے ہیں لیکن انکے ساتھ جو ہوا وہ انہوں نے کل جماعتی کانفرنس میں کھول کر رکھ دیا۔

نواز شریف کو سیاسی میدان سے باہر کرنے کیلئے جو گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اس سے نقصان صرف پاکستان کو ہوا۔ جھوٹے مقدمات میں شرمناک بنیادوں پر سزائیں دینے سے نواز شریف انتخابی سیاست سے تو وقتی طور پر باہر ہو گئے لیکن عوام کے دلوں میں گھر کر گئے۔ وہ لوگ جو انکی سیاست سے متفق نہ تھے وہ بھی کہہ اٹھے کہ نواز شریف کو سزا کسی جرم پر نہیں بلکہ کسی کی انا کی تسکین کیلئے دی گئی ہے۔

آئین و قانون کا ورد کرنے والی ہماری اسٹیبلشمنٹ نے قیام پاکستان سے آج تک اپنے جلف کا پاس نہیں کیا۔ آئین کی کونسی شق ملک و قوم کے 'وسیع تر مفاد' میں بار بار مارشل لاء نافذ کرنے کی اجازت دیتی ہے؟ آئین کی کونسی شق کے تحت ایک منتخب وزیر اعظم کو اسکے گھر میں گھس کر گرفتار کیا جا سکتا ہے؟

نواز شریف نے کہا کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں جب ملکی حالات پر دوسرے ممالک کی تشویش سے آگاہ کیا گیا تو 'ڈان لیکس' بن گئی۔ جے آئی ٹی بنائی گئی، نکلا تو کچھ نہیں لیکن وزیر اعظم اور اس کے خاندان کو بے توقیر کیا گیا۔ ایک ماتحت ادارے کے افسر نے ٹویٹ کے ذریعے کمیٹی کے فیصلے کو 'ریجیکٹڈ' یعنی مسترد لکھا۔

یہ افسر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور تھے جنہوں نے 2018 کے انتخابات کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بس چھ مہینے 'مثبت' رپوٹنگ کریں پاکستان ٹیک آف کر جائیگا۔ سوال کیا جا سکتا ہے آئین کی کونسی شق کے تحت ان کو یہ بات کرنے کا اختیار حاصل تھا؟

نیب پر بات کرتے ہوِئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ صرف حکومت کے مخالفین کو بے بنیاد الزامات پر جیل میں رکھنے اور انکی کردار کشی کیلئے استعال کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا بیان اہم ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ اگر نیب کی قوانین میں تبدیلی کی گئی تو ہم اسے فوری طور پر کالعدم قرار دے دیں گے۔ آج خوف کا یہ عالم ہے کہ ثاقب نثار اپنے ہی شہر میں سیکیوریٹی کے بغیر باہر نہیں نکل سکتے۔

آخر میں نواز شریف صاحب کی خدمت میں دو تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پہلی یہ  کہ اب جب بھی انشاء اللہ حکومت ملے آئین و قانون میں جو بھی تبدیلی کرنی ہے وہ اسمبلی کے اولین اجلاسوں میں ہی کر لیں تاکہ 'خلائی مخلوق' کو سنبھلنے کا موقع نہ ملے۔ دوسری یہ ہے کہ جس طرح افتخار چودھری نے ۲۰۰۹ میں دوبارہ منصب سنبھالنے کے بعد پی سی او پر حلف لینے والے چیف جسٹس کو فارغ کر دیا تھا اور فیصلہ دیا تھا کہ جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں اسی طرح ۲۰۱۸ کے انتخابات کو بھی بیک جنبش قلم کالعدم قرار دیا جائے اور یہ اسلئے ضروری ہے کہ 'خلائی مخلوق' کو یہ باور کرایا جا سکے کہ انکی بچھائی ہوئی سیاسی بساط قبول نہیں کی جائیگی۔

گر قبول افتد زہے عزو شرف

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔