وزارت مذہبی امور نے جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام کے مجوزہ بل کو بنیادی انسانی و آئینی حقوق اور شریعت اسلامی سے متصادم قرار دیتے ہوئے وزارت انسانی حقوق کو اعتراضات کے ساتھ واپس بھیج دیا ہے۔
وزارت مذہبی امور کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ مجوزہ بل مسلم اور غیر مسلم کمیونٹی میں منافرت کا باعث بنے گا، یہ قانون اسلام قبول کرنے کی ممانعت کیلئے استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی روشنی میں اس مجوزہ بل پر لگائے گئے اعتراضات میں 18 سال عمر کی شرط ، جج کے سامنے پیشی اور 90 دن انتظار کو غیر قانونی، غیر شرعی اور بنیادی آیئنی حقوق کے منافی قرار دیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات بہت کم ہیں لیکن بدنامی کا باعث ہیں۔ اسلام میں مذہب کی جبری تبدیلی کی ہرگز گنجائش نہیں، اس کی روک تھام ضروری ہے۔ خیال رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا تھا کہ وزارت انسانی حقوق کے مجوزہ بل میں شریعت سے متصادم متعدد شقیں رکھی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی رمیش کمار وانکوانی، جے پرکاش اور لال چند نے جبراً مذہب کی تبدیلی کے سدباب کیلئے قانون بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔
وزارت انسانی حقوق کی جانب سے مرتب کئے گئے مسودہ میں کہا گیا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کا کوئی فرد اسلام قبول نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی دوسرے مذہب کو قبول کرنا چاہتا ہے تو اسے عدالت سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا ہوگا۔
مجوزہ بل میں کہا گیا تھا کہ تبدیلی مذہب کے خواہش مند کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ علمائے کرام کیساتھ نشست کرے جبکہ مذہبی کتابیں پڑھنا بھی اس کیلئے لازم ہوگا۔ درخواست دینے کے 90 دن بعد تبدیلی مذہب کا عدالت کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔
اسلامی نظریاتتی کونسل کے حکام کا موقف ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی فوری طور پر شرعی احکامات نافذ ہو جاتے ہیں، اس سلسلے میں کوئی تاخیر مناسب نہیں ہے۔