عمران خان اور پاکستان تحریکِ انصاف کے حق میں ٹوئیٹس کرنے والا اکاؤنٹ جو خود ساختہ 'انسانی حقوق' کی کوئی 'عالمی' تنظیم ہے، بھارتی پراپیگنڈا کا حصہ نکل آیا۔
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی گرفتاری اور عمران خان کے نفرت انگیز بیانات پر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوا تو 'انٹر نیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن'IHRF نامی ایک ادارے نے ان کے حق میں ٹویٹس کی ہیں۔ پاکستان کے حوالے سے اس اکاؤنٹ سے تمام ٹوئیٹس حال ہی میں شروع ہوئی ہیں۔ 14 اگست 2022 تک پاکستان کے حوالے سے اس اکاؤنٹ پر کوئی ٹوئیٹ نہ تھی۔
23 اگست کو اس تنظیم نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ 'ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح متعدد ممالک غیر منصفانہ قوانین پاس کرتے ہیں، جو ریاستی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے معصوم لوگوں کے ساتھ دہشتگردوں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے، گرفتار شہریوں کو رہا کیا جائے۔'
لیکن اس تنظیم کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ واقعہ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے؟ کیا اس کے مالکان انسان حقوق کے حوالے سے کوئی جانے پہچانے نام ہیں؟
ٹوئٹر پر 'واحد' نامی ایک صارف نے انسانی حقوق کی اس تنظیم کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اس پر تحقیق کی اور بہت سے چشم کشا انکشافات کیے ہیں۔ 'واحد' نامی اکاؤنٹ کے پیچھے کون ہے، یہ واضح نہیں۔ تاہم، اس کی جانب سے سامنے لائی گئی معلومات کی نیا دور نے آزادانہ طور پر تصدیق کی تو نتیجہ یہی نکلا کہ یہ بادی النظر میں درست ہیں۔
"میں نے چند گھنٹے پہلے یہ ٹوئیٹ دیکھی، یہ میرے لئے کافی چونکا دینے والی ٹوئیٹ تھی کہ ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے ایک گرفتاری کا نوٹس لیا ہے اور اس حد تک کہ ایک پورے یونٹ کو اس پر مزید غور کرنے کے لئے وقف کر دیا ہے۔ ایک انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے اسے "معتبر رپورٹس" بنا کر ٹویٹ کرنا اور واٹس ایپ کے ذریعے ثبوت اور قابل اعتماد خبریں مانگنا بہت عجیب معاملہ ہے۔
"میں نے یہ سمجھنے کے لئے International Human Rights Foundation نامی تنظیم سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا کہ انہیں کون سی 'معتبر خبر' موصول ہوئی ہے۔ ایک سماجی کارکن ہونے کے ناطے یہ میری ذمہ داری ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ ایک ہندوستانی تنظیم ہے؟ تاہم، کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے لہٰذا میں نے مزید گہرائی میں اس کے بارے میں جانچنا شروع کیا۔
"ویب سائٹ کے مطابق 'ہم نے اپنا سفر 2004 میں شروع کیا'۔ ویب سائٹ پر سرٹیفکیٹ کے صفحات کہتے ہیں کہ یہ 29 اپریل 2013 کو سپین میں رجسٹرڈ ہوئی تاہم سپین میں رجسٹرڈ این جی اوز کی مکمل فہرست میں اس تنظیم کا نام کہیں موجود نہیں تھا۔
"اس چیز نے واقعی مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا کہ 100 سے زیادہ انڈین نیوز سائٹس نے انٹر نیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن کو اپنے سورس کے طور پر کیسے نقل کر لیا؟ بعد ازاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ تنظیم یونیورسٹی کی سوسائٹی کونسل میں سول سوسائٹی کی نمائندگی کرتی ہے، اور ساتھ ہی اس کی قائم مقام صدارت پر بھی فائز ہے۔
"بہت تحقیق کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ IHRF اور IFHR، یہ صرف حروف الگ ہیں لیکن تنظیم کم از کم حقیقی ہے؟ میں نے 15 منٹ تک IFHR-FIDH تلاش کیا جس میں انٹر نیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس IFHR کی نشاندہی سے پتہ چلا کہ یہ واقعی کوئی تنظیم ہے جس نے آخری بار 26 اگست 2020 کو پی ٹی آئی دور میں ان کے انسانی حقوق کی خلاف وزری اور بابا جان نامی انسانی حقوق کے رکن اور سیاسی کارکن پر ریاستی جبر کی کہانی بیان کی تھی۔
(تاہم، حقیقت یہ سامنے آئی کہ IFHR تنظیم ہی کے الفاظ میں رد و بدل کر کے ایک IHRF نامی یہ تنظیم بنائی گئی ہے۔ یہ کیوں کیا گیا؟ اس کی حقیقت بھی جاننے کی ہم نے کوشش کی ہے)
"ہندوستانی یورپی یونین ڈس انفارمیشن رپورٹ کو پڑھ کر میں نے ہندوستان میں رجسٹرڈ کمپنیوں میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن کو تلاش کرنے کا سوچا اور میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر انکشاف ہوا کہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن 24 جولائی 2020 کو بھارتی شہر ممبئی میں رجسٹرڈ ہوئی جب کہ اس کا رجسٹریشن نمبر 432573 بھی درج تھا۔
"میں نے ان تمام بین الاقوامی میڈیا تنظیموں کو چیک کیا جنہوں نے عمران خان اور پی ٹی آئی کے بارے میں رپورٹنگ کی اور حقیقت یہ کھلی کہ 90 فیصد خبر رساں اداروں نے تقریباً ایک ہی خبر کو IHRF کا حوالہ دے کر شیئر کیا۔ صرف ہندوستان میں 100 سے زیادہ ویب سائٹس نے اس خبر کو ہندی، ہسپانوی، فرانسیسی اور انگریزی زبان میں شائع کیا ہے۔
(یہ حیرت انگیز ہے کہ 100 سے زائد بھارتی ویب سائٹس نے اسے تین بین الاقوامی زبانوں میں شائع کیا)
"جہاں تک ان کے معتبر ذرائع کا تعلق ہے، یہ پی ٹی آئی کی ایک ٹوئٹر سپیس ہے جس میں انہوں نے 2 دن پہلے شرکت کی تھی۔ اس دوران ادارے نے محض سپیس سے حاصل ہونے والی معلومات پر اکتفا کیا اور انہیں دعوت دینے پر 'علی حسنین ملک' نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ کا شکریہ ادا کیا۔
"دو ادارے جنہوں نے عمران خان کی سٹوری کو شئیر کیا ان میں ٹرانس کانٹینینٹل، ہسپانوی میڈیا ایجنسی ہے جو کہ ایک ہندوستانی شہری کی ملکیت ہے۔ جب کہ دی کریڈل ایک اور میگزین ہے جس کی ملکیت بھی ایک ہندوستانی شہری کی ہے۔ تیسرا معید پیرزادہ کا گلوبل ویلیج سپیس ہے جس کے بارے میں زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں۔"
نیا دور کی تحقیق سے سامنے آیا کہ یہ تنظیم IHRF ہسپانیہ نہیں بلکہ ہندوستان میں رجسٹرڈ ہے اور اس کے مالکان سمیتا تروشال چوڑا اور تروشال ہریش چوڑا نامی دو ہندوستانی شہری ہیں۔ اس ادارے کی ویب سائٹ کا آدھا پیج بمشکل لوڈ ہو جاتا ہے لیکن اس میں دیے گئے ایڈریس پر اس تنظیم کا وجود ثابت نہیں ہو سکا۔ اس کا واحد پتہ جو دنیا کے کسی بھی کونے میں ثابت ہے وہ ممبئی شہر کا ہے اور اس کے صرف دو ڈائریکٹر بھارتی شہری ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر یہ دونوں نام لنکڈ ان، ٹوئٹر، فیسبک، انسٹاگرام پر سرچ کرنے پر کہیں سامنے نہیں آتے جب کہ گوگل کرنے پر یہی ویب سائٹ سامنے آ جاتی ہے جس کا نہ آگے کا پتہ ہے نہ پیچھے کا۔
اس اکاؤنٹ سے تین ٹوئیٹس جن میں لوکیشن واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، بھارت کے دو شہروں بنگلورو اور نئی دلی سے کی گئی ہیں۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس تنظیم کی وہ ٹوئیٹ جس پر تحریکِ انصاف کے حامی بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں اور جس کی وجہ سے یہ اکاؤنٹ اس قدر مشہور ہوا کہ اس کا پول ہی کھل گیا، وہ صحافی شمع جونیجو کو کی گئی ایک ٹوئیٹ تھی جس میں اس تنظیم نے ان کو طنزیہ انداز میں جواب دیا کہ: شکریہ محترمہ! ہم آپ کی نیت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہی وہ غلطی تھی جس نے اس تنظیم کا پول کھولا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں یوں بھونڈے انداز میں طنزیہ ٹوئیٹس واقعتاً جنہیں بے ایمان سمجھتی ہیں، ان کو بھی نہیں دیتیں۔ یہ تو شمع جونیجو ہیں جو کہ ایک معروف صحافی ہیں۔ افسوس کہ یہ پراپیگنڈا میں بھی کچے نکلے۔