یورپی یونین میں جعلی خبروں کے لئے چلنے والے سیلز اور اداروں کی نشاندہی کرنے والے تحقیقی ادارے ای یو ڈس انفو لیب کے مطابق ایک آنجہانی پروفیسر، کئی غیر فعال این جی اوز اور 750 جعلی میڈیا اداروں کو ایک 15 سال سے سر گرم وسیع عالمی منصوبے کے تحت ڈس انفارمیشن اور انڈین مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لئے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی اردو کے مطابق ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ایلیگزانڈر نے کہا ہے کہ کرتے ہی انھوں نے جعلی خبریں پھیلانے کے حوالے سے مختلف سٹیک ہولڈرز پر مشتمل کسی نیٹ ورک میں اتنی ہم آہنگی نہیں دیکھی۔
اس نیٹ ورک کے پیچھے سری واستو نامی ایک گروپ ہے جس کے بارے مین گذشتہ روز انڈین کرونیکلز نامی ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری ہوئی ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سری واستوا گروپ سے چلائے جانے والے اس نیٹ ورک کی پہنچ کم از کم 116 ممالک اور نو مختلف خطوں تک ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ نیٹ ورک جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) اور برسلز میں یورپی پارلیمان پر اثر انداز ہونے کے کوشش کرتا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کشمیر میں بھارت کی جانب سے روا رکھے جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اقوام متحدہ کے اسی ادارے میں اٹھاتا ہے۔ جبکہ بھارت اسی کو پاکستان میں بلوچستان وغیرہ کے حوالے سے استعمال کرتا ہے۔
حیران کن طور پر یہ نیٹ ورک مشکوک یا جعلی این جی اوز، سات سو سے زائد جعلی میڈیا ادارے، فرضی شناخت اختیار کر کے یا دوسروں کی شناخت چرا کر، یا ایک کیس میں تو انسانی حقوق پر کام کرنے والی ایک انتہائی معتبر شخصیت کو زندہ کر کے اپنے مقاصد پورے کرنے پر کام کرتا ہے۔جس شخص کی شناخت کو دھوکہ دہی سے دوبارہ زندہ دکھایا گیا ہے اسے درحقیقت انسانی حقوق کے قوانین کے بانیوں میں سے شمار کیا جاتا ہے اور ان کی 2006 میں 92 سال کی عمر میں وفات ہو گئی تھی۔ وہ ایک پروفیسر تھے۔
اس کے علاوہ اس نیٹ ورک کی حکمت عملی یہ ہے کہ میڈیا کے جعلی اداروں پر شائع ہونے والی خبروں کو انڈیا کی سب سے بڑی نیوز وائر ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) کے ذریعے معتبر ظاہر کرے اور مزید آگے پھیلائے۔
اے این آئی کے ذریعے ای یو کرونیکلز پر چلنے والی پاکستان مخالف خبروں اور مضامین کو شائع کر کے انڈیا میں دیگر میڈیا کے اداروں تک پہنچایا جا رہا ہے اور ان خبروں کو ہلکا سا رد و بدل کر کے ان کو مزید سخت بنایا گیا۔ اور یوں ان جعلی معلومات کو معتبر ثابت کیا گیا۔
اے این آئی کے حوالے سے کئی مضمون منظر عام پر آچکے ہیں جس میں اس کے بھارتی خفیہ اداروں کا ماؤتھ پیس ہونے کے الزامات ہیں۔
ای یو ڈس انفو لیب کی دونوں تحقیقی رپورٹس میں یہ واضح ہے کہ پورے نیٹ ورک کو چلانے میں اہم ترین کردار انکت سری واستوا کا ہے جو اس گروپ کے نائب چئیر مین ہیں۔ انکی والدہ کے بارے میں رپورٹس ہیں کہ بین الاقوامی کانفرنسز میں بھارت پر تنقیدی بات کرنے والے سرکاری و غیر سرکاری عہدیداروں، صحافیوں اور دانشوروں کو یہ کہہ کر دھمکاتی رہی ہیں کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کی عہدیدار ہیں۔ وہ گروپ کی چئیرپرسن بھی ہیں۔
تاہم ابھی تک اس رپورٹ نے اس گروپ کے پیچھے بھارتی ایجنسیوں کے ہاتھ ہونے سے متعلق مزید تحقیق کرنے کی سفارش کی ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مسلسل بھارت پر جعلی معلومات پھیلانے کا الزام عائد کرتی رہی ہے لیکن یہ شاید پہلا موقع ہوگا کہ عالمی سطح پر بھارتی مفادات کی حفاظت کے لئے جعلی خبریں پھیلانے والا اتنا منظم، مربوط اور پاکستان مخالف گروپ بے نقاب ہوا ہے۔
ابھی بھی دیکھیے تو اس میں پاکستان کا کوئی کمال نہیں۔ برس ہا برس سے دنیا بھر میں ہمارے سفارتی دفاتر موجود ہیں۔ برسلز میں موجود جنگ گروپ کے correspondent خالد حمید فاروقی نے نیا دور سے ہی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہی وضاحتیں دیتے رہ جاتے ہیں۔ اوپر سے آزاد صحافیوں کے سفارتخانے جانے پرپابندی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحافی پاکستان کی خارجہ پالیسی سے اختلاف رکھتے ہیں۔
ذرا سنیے انہوں نے کیا کہا:
صحافیوں سے جب ہمارے سفارتخانے ملنے جلنے کے روادار نہیں تو اچھی ساکھ رکھنے والا آزاد میڈیا تو پاکستان کا مقدمہ دنیا میں پیش کرنے سے رہا۔ اسی پروگرام میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کے حکمرانوں کو بین الاقوامی تعلقات کی بالکل سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ انہوں نے تفصیلاً بتایا کہ کس طرح اپنے ملک میں populism کی سیاست سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ صحافتی تنظیمیں پاکستان میں صحافت پر لگی قدغنوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ شیریں مزاری کی ٹوئیٹ کا ذکر کیے بغیر انہوں نے بتایا کہ فرانس کو ناراض کر کے پاکستان نے یورپی یونین کے ایک بڑے کو اپنے خلاف کر لیا ہے اور اس وقت بھارت کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو فرانس خود اجاگر کر رہا ہے۔
سنیے:
آج بھی اس رپورٹ کے آنے کے بعد حکومتی جماعت اور ریاستی پالیسیوں کے حمایتی سوشل میڈیا پر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان کو گالیاں دیتے پھر رہے ہیں۔ انہیں کہہ رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کے ساتھ یہ سب کرتا رہا اور تم سب بھی بھارت ہی کے ایجنٹ ہو کیونکہ تم نے بھی یہ سوالات اٹھائے ہیں۔ حقیقت البتہ یہ ہے کہ بھارت نے یہ پراپیگنڈا کامیابی سے کیا ہی اس لئے ہے کہ یہ سب حقائق بھی ہیں۔ بھارتی آپریشن صرف ان حقائق کو اچھالنے کا کام کر رہا تھا۔ چھوٹی خبر کو بڑا بنا کر دکھانے، اس میں اپنی مرچ مصالحوں کے ذریعے اس کو پاکستان کے خلاف مزید خطرناک بنانے اور ہر بری خبر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کا کام اس نے بخوبی کیا، اور ہم اس کو خود اپنی غلطیوں سے مدد فراہم کرتے رہے۔
یہاں ہدف ہم ہی بنتے ہیں۔ دشمن کی کسی کو فکر نہیں، پاکستانی صحافی اٹھائے جاتے ہیں، میڈیا کی زبان بندی کی جاتی ہے، انسانی حقوق کے کارکنان کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ قوانین ہمارے متعصبانہ ہیں۔ آئے روز یہاں سے کسی نہ کسی توہینِ مذہب کے مقدمے یا اس کی بنیاد پر ہوئے قتل کی خبر دنیا بھر میں پہنچتی ہے۔ ابھی تین ماہ پہلے پشاور میں ایک امریکی شہری کو توہین کے مقدمے کی شنوائی کے دوران ایک نوجوان نے قتل کر دیا۔ کیا یہ خبر امریکہ تک نہ پہنچتی؟ یہاں ایک گورنر کو اس کا گارڈ قتل کر دیتا ہے، اقلیتی حقوق کا وزیر، جو خود بھی اقلیتی برادری سے تعلق رکھتا ہے، اس کو دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے، قاتل کو پھانسی دی جاتی ہے تو جنازے میں لاکھوں انسانوں کا سمندر امڈ آتا ہے۔ ایک عورت پر توہین ثابت نہ ہو تو یہاں سڑکوں پر ہزاروں افراد آ کر دھرنا دے دیتے ہیں۔ یہ وہ images ہیں جنہیں پھیلانے میں یہ نیٹ ورک سرگرم ہے، لیکن یہ حقیقی ہیں۔ ان سے اغماز برتنا کسی بھی طور ریاستِ پاکستان کے حق میں نہیں۔ جب تک یہ معاملات حل نہیں ہوتے، بھول جائیے کہ پاکستان کا دنیا کے سامنے امیج بہتر ہوگا۔ بھارت کا ایک نیٹ ورک بند ہو جائے گا، دوسرا کھل جائے گا۔ نہ جانے اور کتنے موجود ہوں گے جن کا پتہ ہی نہیں۔ لیکن اپنے گھر کا ہمیں پتہ ہے، اور اس کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری ہماری ہے۔ جب تک اسے ٹھیک نہیں کرتے، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ متاثرہ ہی رہے گی۔