توشہ خانہ کیس: خواجہ حارث چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی قانونی ٹیم سے علیحدہ ہو گئے

ذرائع کے مطابق خواجہ حارث کی جانب سے خود کو کیس سے علیحدہ کرنے کے بعد اب سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نمائندگی لطیف کھوسہ اور دیگر وکلا کریں گے۔ خواجہ حارث نے کیس کی تمام فائلیں چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو بھجوا دیں۔ خواجہ حارث نے چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں ڈسپلن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔

توشہ خانہ کیس: خواجہ حارث چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی قانونی ٹیم سے علیحدہ ہو گئے

خواجہ حارث ایڈووکیٹ توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی)   عمران خان کی لیگل ٹیم سے الگ ہو گئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ خواجہ حارث نے کیس کی تمام فائلیں چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو بھجوا دی ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کیلئے خواجہ حارث عدالت میں پیش نہیں ہوں گے۔

ذرائع کے مطابق خواجہ حارث کی جانب سے خود کو کیس سے علیحدہ کرنے کے بعد اب سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی نمائندگی لطیف کھوسہ اور دیگر وکلا کریں گے۔

خواجہ حارث نے کیس کی تمام فائلیں چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو بھجوا دیں۔

ذرائع کے مطابق خواجہ حارث نے چیئرمین پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں ڈسپلن پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔

خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق پر اعتراض نہ اٹھانے کا مشورہ دیا تھا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کے کچھ ارکان چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ پر اعتراض اٹھانے کا مشورہ دے رہے تھے۔

دوسری جانب ، توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر اہم سماعت جاری ہے۔

سابق وزیراعظم کی درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔

چیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکلا سلمان اکرم راجا، لطیف کھوسہ، بابر اعوان، بیرسٹر علی ظفر، بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت، شعیب شاہین سمیت دو درجن سے زائد وکلا عدالت میں پیش ہیں جب کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے امجد پرویز اور دیگر عدالت میں موجود ہیں۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ سے ملنے والی سزا کو بادی النظر میں غلط قرار دیا تھا۔ ہائیکورٹ کو حکم دیا ہے کہ آج کیس کو سُنے ورنہ دن دو بجے عدالت عظمیٰ خود سماعت کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں نقائص ہیں۔ فوجداری کیس میں ملزم کو سنے بغیر سزا سنا کر جیل کیسے بھیج دیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے وہ کہاں ہوا۔

عدالت نے پوچھا کہ قانونی تقاضے پورے کئےبغیر جلدی میں سزاکیوں سنائی گئی ؟ ہائی کورٹ نے قابل سماعت ہونے کا جو فیصلہ کالعدم قرار دیا اس کو ماتحت عدالت نے بحال کیسے کیا ؟ اور فوجداری کیس میں ملزم کو سنےبغیر سزا سناکر جیل کیسےبھیج دیا گیا ؟ جسٹس جمال مندوخیل نےاستفسار کیا ملزم اپنے حق میں دفاع پیش کرنا چاہتا تھا تو کیوں نہ کرنے دیا گیا ؟ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے وہ کہاں ہوا ؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ملزم کو سنے بغیر جیل بھیجا گیا ، کیا ہم بھی انہیں آج ہی رہا کر دیں ؟ بادی النظر میں فیصلے میں غلطیاں موجود ہیں۔  آج مداخلت اس لئے نہیں کر رہے کہ جمعرات کو اپیل ہائیکورٹ میں مقرر ہے۔ ہائیکورٹ کل صبح کیس سنے ورنہ بعد دوپہر ہم سنیں گے ۔

سپریم کورٹ نے سماعت کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا۔ قرار دیا ہے ٹرائل کورٹ نے درخواست گزار کو سنے بغیر یکطرفہ طور پر فیصلہ کر دیا ۔ درخواست گزار کے گواہان کو غیرمتعلقہ قرار دے دیا گیا۔ ٹرائل کورٹ کیس قابلِ سماعت ہونے اور اختیار سماعت پر فیصلہ کرنے میں ناکام رہی ۔ حتمی فیصلے میں ان نکات کا سہارا لیا جنہیں ہائیکورٹ کالعدم قرار دےچکی تھی۔ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کےحکم کی خلاف ورزی کی۔ یہ سنجیدہ قانونی نکات انتہائی توجہ کےمستحق ہیں ، قابلِ سماعت اور اختیار کے حوالے سے پہلے ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ اس کے فیصلے کا انتظار کرے گی ۔ اپیل پر مزید سماعت آج دن دو بجے ہو گی۔