اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں بڑھتے ہوئے جرائم پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی عملداری کہیں پر نظر نہیں آرہی ، ملک کا نظام انتہائی گہرائی تک کرپٹ ہوچکا ہے اور سفارش کلچر نے ہر چیز تباہ کر کے رکھ دی ہے۔ ان مسائل کو ختم کرنے کے لئے ایک مضبوط سیاسی عزم کی ضرور ت ہے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ شہزاد اکبر عدالت کے احکامات پر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کےچیف جسٹس نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے داخلہ شہزاد اکبر سے پوچھا کیا آپ نے مقامی کچہری جا کر وہاں کے مسائل دیکھے ہیں ؟ آپ تصور نہیں کرسکتے کچہری میں کیا مسائل ہیں؟ عدالت نے شہزاد اکبر سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ داخلہ کے ساتھ ساتھ احتساب کے بھی مشیر ہیں ، وزیراعظم پاکستان کو بتادیں ایک دن آکر احتساب عدالتوں کی حالت زار دیکھیں۔
عدالت نے مزید کہا کہ احتساب عدالت کے ججوں کے پاس بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے نہ ہی ان کے پاس عملہ پورا ہے، احتساب عدالت کے جج دن رات کام کرنے کو تیار ہیں، کام کا اتنا بوجھ ہے تو ان ججوں کو سہولیات تو دیں۔
چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ بہت شرمندگی کا مقام ہے کہ عدالتیں کرائے کی دکانوں میں بنی ہیں جبکہ ان دکانوں کے کرائے سالوں تک ادا نہیں ہوئے ہیں اور دکانوں کے مالکان عدالت پہنچ گئے ہیں۔ عدالت نے شہزاد اکبر کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھ کر عدالت کو رپورٹ دیں، عدالتوں کی تعداد میں اضافہ نہ کریں لیکن انہیں اسٹاف دے دیں۔