یہ جو کل عدالت کا فیصلہ آیا ہے یہ حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ بیان حلفی اس لئے لیا گیا ہے کہ گورنر نے وزیر اعلیٰ کو ڈی-نوٹیفائی کر دیا تھا اور اگرعدالت بیان حلفی نہ لیتی تو پرویز الٰہی کے پاس اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار رہتا۔ یہ کہنا ہے ماہرِ قانون رضا رحمان کا۔
نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں بات کرتے ہوئے رضا رحمان کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 122 کے تحت وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا ہے۔ گورنر کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اگر جمعرات کو وزیر اعلیٰ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتے تو وہ وزیر اعلیٰ نہیں رہیں گے۔ وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا تھا جس کے بعد آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت گورنر نے ان کو ڈی-نوٹیفائی کیا تھا۔
سینیئر صحافی افتخاراحمد نے کہا کہ میثاق جمہوریت میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ایک آئینی عدالت ہونی چاہیے جس میں آئین سے وابستہ مسائل اور کیسز کو سنا جائے۔ آئین کے مطابق گورنر وزیر اعلیٰ کو کہہ سکتا ہے کہ وہ اعتماد کا ووٹ لیں مگر وزیر اعلیٰ اس کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب پی ٹی آئی نے سرکاری ملازمین کو بھی فریق بنانا شروع کر دیا ہے۔ افتخار احمد نے عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے علم میں ہونا چاہیے تھا کہ ان کے اس فیصلے سے صوبے کے انتظامی معاملات کا کیا بنے گا۔
افتخاراحمد نے مزید کہا کہ پنجاب میں اس وقت اربوں روپے کے منصوبے جاری ہیں جو ان دنوں میں حتمی شکل پا سکتے ہیں، ان کے صوبے پر اثرات ہوں گے۔ عدالت ان قوانین پر فیصلہ دے رہی ہے جو آئین کا حصہ ہی نہیں ہیں بلکہ وہ قوانین اسمبلی نے بنائے ہوئے ہیں۔ عدالت کو فیصلہ کرتے ہوئے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔
افتخار احمد نے کہا کہ عدالت نے پرویز الٰہی کو زیادہ دن دے کر ایک منفرد فیصلہ کیا ہے۔ پرویز الٰہی اپنے سارے کام نمٹانے کے بعد عمران خان کو خوش کرنے کے لئے اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ اگر اس طرح کے فیصلے آتے رہے تو اس طرح تو ریاست کا سارا نظام ہی بیٹھ جائے گا۔ عدالتوں کو صرف یہ فیصلہ کرنا تھا کہ گورنر نے جو فیصلہ کیا تھا وہ آئین کے مطابق تھا یا نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ زرداری صاحب نے جیسا کہا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ (ن) لیگ کا حق ہے تو پھر حمزہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے۔
افتخاراحمد نے کہا کہ موسم سرما کی تعطیلات کے دوران بھی ضروری کیسز کو سنا جاتا ہے تو پھر کیوں عدالت میں اس فیصلے کو مؤخر کیا گیا ہے؟ یہ ایک غیر معمولی معاملہ تھا جس کے بارے میں عدالت کو جلدی فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔
صحافی توصیف احمد خان نے کہا کہ تحریک انصاف کا ایجنڈا ہے کہ آرمی چیف سمیت تمام سرکاری افسروں کے ساتھ ان کا ایک سا دباؤ والا رویہ رکھا جائے۔ اس ساری ایکسرسائز کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ چیف سیکرٹری کی عمران خان کے کام کرنے سے جان چھوٹ گئی ہے۔
صحافی توصیف احمد خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ وہ جنوبی پنجاب میں خود کو مضبوط کرے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی 'الیکٹ ایبلز' کو اگلے الیکشن میں اپنی پارٹی میں لینا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کے سیاسی لوگوں سے رابطہ کیا ہے اور ان کو کافی مثبت جواب ملا ہے۔ جنوبی پنجاب کے سیاسی لوگ بظاہر پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اب اس پارٹی کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جو خواتین عمران خان سے ملی ہیں اور انہوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں پیپلز پارٹی والے پیشکش کر رہے ہیں، وہ خود پیپلز پارٹی سے مل کر معاملات طے کرتی رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے الیکشن میں بھی تین لوگ ووٹ نہیں دینا چاہ رہے تھے مگر سیریل نبمر کے مسئلے کی وجہ سے وہ مجبور ہو گئے۔
صحافی توصیف احمد خان نے کہا کہ اگر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ نہ بنتے تو یہ حالات نہ پیدا ہوتے اس لئے اس دفعہ ملک احمد خان کو بھی وزیراعلی کے امیدوارکے طور پرذہن میں رکھنا چاہیے۔
میزبان رضا رومی نے پروگرام میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں کو حکومت کو گرانے اور لانے کی بجائے آئین اور قانون کے حساب سے اپنے فیصلے دینے چاہئیں۔ عدالتیں پاکستان کے آئین کو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ موجودہ سیاسی انتشار سے پورا نظام بیٹھ سکتا ہے۔ لاہور میں راوی کو کاٹ کر ایک منصوبہ بنایا جا رہا ہے جو سیلاب کی وجہ بھی بنے گا اور ماحولیاتی مسائل بھی پیدا کرے گا۔ پاکستان میں لینڈ مافیا کا ایک نیا طبقہ آ گیا ہے جو بہت طاقتور ہو چکا ہے۔ رضا رومی نے کہا کہ پاکستان کی عدلیہ بھی یرغمال بنی ہوئی ہے، ہائبرڈ پروجیکٹ میں دو جنرلز نے عدالتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا اور ان 6 سالوں میں 1950 اور 1960 کے دور کی عدالتیں واپس آ گئی ہیں۔
رضا رحمن نے کہا کہ عدالت میں پرویز الٰہی کے وکیل کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے پورا وقت نہیں دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر وزیر اعلیٰ چاہیں تو وہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت آگے کیا فیصلہ کرتی ہے۔
سینیئر وکیل نے مزید کہا کہ موجودہ تنازعہ میں وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی اپنے اپنے حساب سے معاملے کی تشریح کر رہی ہیں۔ جب کہ عدالت کی طرف سے ایک توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ عدالتیں تحریک انصاف کی تنقید سے بچنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عدالتیں جب پی ٹی آئی کے خلاف فیصلہ دیتی ہیں تو وہ عدالتوں پر الزامات اور تنقید شروع کر دیتے ہیں۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ ‘خبر سے آگے’ ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔