اعتماد کے ووٹ سے پہلے پُراعتماد ہونے کی اداکاری - نمبر جھوٹ نہیں بولتے

اعتماد کے ووٹ سے پہلے پُراعتماد ہونے کی اداکاری - نمبر جھوٹ نہیں بولتے
اعتماد کے ووٹ سے پہلے پراعتماد ہونے کی اداکاری کرنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ لیکن اس بار یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون سی جانب سے زیادہ اداکاری ہو رہی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یا کم از کم وہ ہمیں یہی یقین دلانا چاہتے ہیں۔ وہ ماسکو چلے گئے ہیں – ایک سیاسی اور عسکری طوفان کے بیچوں بیچ – اپوزیشن کی طرف سے جلد ہونے والے حملے کی پروا کیے بغیر۔ وہ روس میں پوٹن سے ملاقات کریں گے، پیچھے سب کچھ ان کے وزرا اعلیٰ اور دیگر وزرا سنبھال لیں گے۔ ماسکو اور اسلام آباد کے مسائل سے ایک ساتھ نمٹا جا سکتا ہے۔ یا کم از کم وہ ہمیں یہی یقین دلانا چاہتے ہیں۔

ان کے کابینہ کے ساتھی دلیری کا تاثر دے رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری مخالفین کا مذاق اڑا کر خوش ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ مذاق اڑانے سے کچھ نہیں ملتا۔ کابینہ میں موجود اور بھی کئی وزرا پراعتماد ہونے کی اداکاری کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ صحافیوں سے لڑ جھگڑ بھی رہے ہیں۔

ان کی اندر کو مڑی ہوئی بھنؤوں میں ٹھنڈا پسینہ چمک رہا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نمبر جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن کبھی کبھی بول دیتے ہیں۔ 178 کا ہندسہ جو PTI نے حال ہی میں ہمیں کچھ مواقع پر حاصل کر کے دکھایا ہے، یہ اچانک 172 سے نیچے گر سکتا ہے۔ خطرہ پنجاب میں منڈلا رہا ہے جہاں وزیر اعلیٰ کو اب کہا گیا ہے کہ وہ ان تمام پارلیمنٹیرینز کی شکایتیں دور کریں جو ان نمبرز کو ہلا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ سے لوگوں کو بہت زیادہ امیدیں نہیں ہیں۔ حکومت کے ان ناراض اراکین کو آج سے زیادہ مستقبل کی فکر ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنا سیاسی سرمایہ وہاں لگائیں جہاں سے انہیں انتخابی فوائد حاصل ہو سکیں۔ PTI کی مشکلات میں گھری حکومت انہیں فنڈز دے سکتی ہے لیکن کیا وہ انہیں انتخابی فتح دلوا سکتی ہے؟

جب تک کہ انہیں ٹھوس یقین دہانیاں نہ کروا دی جائیں کہ حکومتی جماعت اپنے رستے زخموں کو بھر سکتی ہے۔ کچھ ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے پاس ممکن ہے ایک دو داؤ ابھی باقی ہوں۔ آخری صفوں میں موجود ان کے پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان غور سے دیکھ رہے ہیں۔ بہت غور سے۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہوا کس طرف چل رہی ہے۔ گردن یا آنکھ کا ایک اشارہ، کوئی سرگوشی – کچھ بھی ایسا جو انہیں واضح طور پر بتا سکے کہ کس طرف ان کا مستقبل محفوظ ہے۔

پراعتمادی کی اداکاری بھانپنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن بھی پوری اداکاری کر رہی ہے۔ لاہور میں لگی رونق میں مناظر بڑے اہم ہیں۔ ایک ملاقات یہاں، ایک عشائیہ وہاں – شہباز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ ان کے پاس نمبرز ہیں۔ یا وہ بہت ہی قریب ہیں۔ لیکن ریڈ زون ذرائع کے مطابق وہ بھی جانتے ہیں کہ ڈاج کرتے ہوئے ڈی میں داخل ہو جانے کا مطلب یہ نہیں کہ گول بھی ہو جائے گا۔

خاص طور پر جب گول پوسٹ مستقل تبدیل ہوتی رہتی ہو۔ اس منی سیریز میں اتنے مختلف پلاٹ ہیں کہ کبھی کبھی سکرپٹ کی باریکیوں کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات میں ایک کنفیوژن کا تاثر ہے۔ کچھ تو جان بوجھ کر کنفیوژن پھیلائی گئی ہے (انہیں مصروف رکھو اور اپنا کام رازداری سے دکھا دو) اور کچھ اس ابہام سے مزید ابہام خود ہی جنم لے رہا ہے۔ کچھ اہم کھلاڑیوں نے واقعی ابھی تک فیصلہ نہیں کیا۔ ایک تیسرا محرک بھی ہے: وہ یہ کہ پلاٹ خود ہی بڑا پیچیدہ ہے۔ جس دن یہ سب ہوگا، اس سے اگلے دن کیا ہوگا؟ اور پھر اس سے اگلے دن؟ ایک دوسرے سے ٹکراتے ان مفادات کے بیچ میں سے اس ناؤ کو نکالنا خاصا مشکل ہو رہا ہے۔

ریڈ زون میں اضطراب ہے۔ سب ایک دوسرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ پڑھ نہیں پا رہے۔ اکثر۔ ان تمام چیزوں کو ایک جگہ رکھ کر دیکھنے سے ہی صورتحال کچھ واضح ہوتی ہے۔ کچھ اندرونی ذرائع سے آپ بات کریں تو آپ کو ایک ایسا منظرنامہ دیکھنے کو ملے گا جو دیگر اندرونی ذرائع کے منظرنامے سے بالکل الٹ ہوگا۔ لیکن کچھ چیزوں پر اتفاق ہے۔ مثلاً

حکومت:

وزیر اعظم عمران خان نے چارج اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ پراعتماد ہونے کی ان کی اداکاری یہ حقیقت چھپا لیتی ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ خطرے میں ہیں۔ اندرونی ذرائع کے مطابق وہ اپوزیشن کے حملے کو روکنے کے لئے ہونے والی کوششوں کو خود لیڈ کر رہے ہیں۔ ان کی حالیہ چالوں میں عملی سیاست کی سمجھ جھلکتی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ کس مسئلے کو پہلے حل کرنا ہے اور کیسے۔ کیا وہ یہ کر پائیں گے؟ یہیں تو مسئلہ ہے۔

ایک پلان بی پر بھی کام جاری ہے۔ لیکن اس میں خطرات بہت ہیں۔ اس راز کو بہت ہی خفیہ رکھا جا رہا ہے – ظاہر ہے کیوں – لیکن ایک چیز ہے جس میں کوئی شک نہیں: اگر پہلے سیزن کا اختتام تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی پر ہوا تو پھر اس سیریز کا ایک دوسرا سیزن بھی آئے گا۔ سیاسی جوڑ توڑ عروج پر ہیں۔ اس سے حکومتی جماعت میں بہت سے لوگ پریشان ہیں۔

سپیکر اسد قیصر بہت مصروف ہیں۔ ان کا عملہ بھی۔ قومی اسمبلی چلانے کے قوانین، قواعد اور ضوابط بہت اہم کردار ادا کریں گے اگر وزیر اعظم کو ہٹانے کے لئے تحریکِ عدم اعتماد آئی۔ اس کو ذرا ٹائمنگ کے ساتھ ملا کر دیکھیے (لانگ مارچ، اسلامی سربراہی کانفرنس، یومِ پاکستان کی پریڈ، غیر ملکی مہمانان کی آمد) تب ہی آپ کو پتہ چلے گا کہ سپیکر کا کردار کتنا اہم ہے۔

اپوزیشن:

پر اعتمادی کی اداکاری میں ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ کیا ہو گا اگر نمبرز – اور دیگر افراد نے – ان کو دھوکہ دیا؟ اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں عدم اعتماد لا کر ہارنے سے بہتر ہے کہ پیچھے ہٹ جایا جائے۔ اور پھر وہ اس U ٹرن کی تاویل کیسے کریں گے؟ بہانہ یہ کیا جائے گا کہ 'وہ' غیر جانبدار نہیں تھے۔ جنگ ہوتی رہے گی، پہلے جان بچائی جائے؟

بدھ کے روز بڑی چال کے لئے ایک مشترکہ کمیٹی بنانے کے بعد اپوزیشن اب نمبرز گیم پوری کرنے کے لئے اگلا گیئر لگا چکی ہے۔ اسی لئے جہانگیر ترین گروپ کے ساتھ مذاکرات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ترین صاحب موجودہ صورتحال سے آگے دیکھ رہے ہیں۔

آگے کی صورتحال میں صرف یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اگر یہ سیٹ اپ گرایا جاتا ہے تو اگلا سیٹ اپ کیا ہوگا بلکہ سوال یہ بھی ہے کہ اس سیٹ اپ کو کتنے عرصے میں کیا کرنے کو کہا جائے گا۔ اس میں یہ بھی سوال ہے کہ 2018 انتخابات کو دیکھتے ہوئے اگلے انتخابات کیسے کروائے جائیں گے۔ اس کے لئے اداروں کے اندر ایک اتفاق رائے لازمی ہے – چاہے یہ بہت مفصل نہ ہو – اور پھر اس پر عملدرآمد کے لئے یقین دہانیاں بھی چاہیے ہوں گی۔ اور ہاں، نکالے جانے کے بعد والے عمران خان سے کیسے نمٹا جانا ہے۔ اور ان سے کون نمٹے گا؟

یہ بڑے معاملات ہیں اور پیچیدگیوں میں گندھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈ زون میں لوگ خود کو بھی بار بار یاد کرواتے رہتے ہیں کہ نمبرز جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن کبھی کبھی بول دیتے ہیں۔




فہد حسین کا یہ مضمون ڈان میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔