برطانیہ میں تعلیم کے دوران میں اکثر اپنے ایک دوست سے ملنے لندن جایا کرتا تھا۔ میری یونیورسٹی جس شہر میں تھی مجھے وہاں سے لندن پہنچنے میں قریباً دو گھنٹے لگتے تھے۔ میرے دوست کے گھر میں رہنے والے باقی سب لڑکوں سے بھی میری کافی اچھی گپ شپ بن گئی۔ ان کے گھر کا نظام یہ تھا کہ باری باری سب لڑکے کام کرتے۔ جس لڑکے کی باری ہوتی تھی وہ سودا سلف لے آتا خود ہی کھانا پکاتا، صفائی بھی کرتا اور رسید لا کے گھر کے اس لڑکے کو دے دیتا جو سب سے سینئر ہوتا۔ یہ اخراجات اور گھر کا کرایہ ملا کر سب پہ جتنا، جتنا حصہ بنتا وہ مہینے کے آخر میں انچارج کو دے دیتے۔
اس وقت یہ ذمہ داری خواجہ بھائی کی ہوتی تھی جو کہ مری کے رہنے والے تھے اور انتہائی اچھے انسان، محنتی اور اعلیٰ کردار رکھنے والے۔ یہ ان کی انتظامانہ صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ انتہائی مناسب پیسوں میں گھر کے سب افراد ناشتہ اور رات کا بہترین کھانا کھاتے اور انہی پیسوں میں گھر کی دیگر ضروریات بھی پوری ہو جاتیں۔ خواجہ بھائی کی سب عزت کرتے اور ان سے احتراماً ڈرتے بھی کیونکہ خواجہ بھائی حاضر دماغ ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط کردار کے مالک تھے۔
ہوا کچھ یوں کہ خواجہ بھائی کو سعودی عرب میں ایک بہت اچھی نوکری مل گئی اور وہ برطانیہ سے چلے گئے۔ اس مرتبہ جب میرا چکر لگا تو دیکھا کہ گھر کا نظام درہم برہم ہے۔ نا پہلے جیسی صفائی، نا پہلے کی طرح سب کا کسی بڑے کے احترام میں محفل میں کچھ دیر بیٹھ جانا اور نا ہی کھانے پینے کے کوئی آثار نظر آئے۔ میں چونکہ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہتا تھا اور میرے فلیٹ میں رہنے والے تمام لوگ مختلف ممالک کے تھے تو میرے لیے یہ لندن کا چکر تفریح سے بھی بڑھ کر تھا کہ کچھ دن اپنے دیسی ماحول میں گزارنے کا لطف آئے گا۔ لیکن اس مرتبہ جب میں دوست کے گھر گیا تو وہ خوشی محسوس نا ہوئی جو پہلی ہوا کرتی تھی۔
میں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ معاملہ کیا ہے۔ میرے دوست نے بتایا کہ جب سے خواجہ بھائی گئے ہیں کسی کو اب پہلے کی طرح اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں رہا۔ نا کوئی سودا سلف لاتا ہے اور نا ہی کھانا پکتا ہے۔ اب سب لوگ باہر سے مہنگا کھانا منگوا کر کھاتے ہیں۔ اس نے کہا کہ اب سب اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں، جس کی وجہ سے سب کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آج کل اس گھر کے بڑے بھائی کون ہیں۔ اس نے جس شخص کا نام لیا میں سن کر حیران رہ گیا اور اپنے دوست سے اصرار کیا کہ وہ تو آپ کے گھر میں سب سے اچھا انسان ہے۔ اس بات پر میرا دوست مسکرا دیا اور اس نے کہا کہ اسی وجہ سے تو اب گھر پہلے جیسا نہیں رہا۔ اب ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی نہیں ڈرتا کہ یہ شریف آدمی ہمیں کیا کہے گا۔ میرے دوست نے گھر کے ان افراد کا ذکر کیا کہ جو گھر کے نئے بڑے کے سادہ پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حساب کتاب میں کرپشن کر رہے تھے اور اس کے باوجود کہ گھر میں ہوتا کچھ نہیں لیکن خرچہ سب کا بڑھ گیا ہے۔
یہ تمہید میں نے اس لیے باندھی کہ جب سے خان صاحب کی حکومت آئی ہے ایک کے بعد دوسرا بحران جنم لے رہا ہے۔ مگر کیوں؟
میرا یہ ماننا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید اتنی کرپشن نہیں ہوئی ہو گی جتنی ڈیڑھ سال میں ہوئی۔ کیونکہ کرنے والوں کو پتہ ہے کہ اوپر جو بیٹھا ہے وہ ان چیزوں کو نہیں سمجھتا۔ آپ آٹے کے بحران کو ہی دیکھ لیں۔ ٹرک کے پیچھے قطاروں کا منظر آخری مرتبہ آپ نے کب دیکھا تھا؟ محض ٹرک سے آٹا لینے کا منظر اس بات کی دلیل ہے کہ کسی نے بہت بڑا ہاتھ مارا ہے اور جس نے بھی مارا ہے اس نے یہ دیکھتے ہوئے مارا ہے کہ یہ جو اوپر بیٹھا ہے یہ ان چیزوں کو نہیں سمجھتا یا اگر سمجھ جائے تو کچھ کہے گا نہیں۔ ان لوگوں کو ہم عام زبان میں مافيا کہتے ہیں۔ اس معاملے میں ڈھکے چھپے تجزیوں میں کچھ ہستیوں کا ذکر تو کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں اگر کوئی واقعی میں آزاد ہے تو وہ مافیا ہی آزاد ہے، چاہے وہ کہیں بھی کسی بھی صورت میں ہو۔
دنیا کی نظر میں ہم کتنے کرپٹ ہیں؟
اس ضمن میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جدید ترین رپورٹ کے مطابق ہم اب پہلے سے زیادہ کرپٹ ملک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تو محض ایک رپورٹ ہے جو کاغذوں میں منجمد ہے۔ اصل صورتحال بھی یہی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خان صاحب کرپٹ ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے آنے کے بعد کرپشن کرنے والوں نے خان صاحب کی کمزوریوں کے دیکھتے ہوئے حالات سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھاتے رہیں گے۔
نواز شریف اور آصف علی زرداری پہ کرپشن کے بہت الزامات ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا قلعہ مضبوط ہے ان کی حکومتوں میں کم از کم ان کے اپنے پارٹی کے لوگ چھپ چھپ کر اس طرح کی کاروائی نہیں ڈال پائے جس طرح کی آج کل دیکھنے میں آرہی ہے۔ نواز شریف، آصف علی زرداری اور دیگر پارٹی کے سربراہان کا ایک نظام ہے جس میں سب سے زیادہ شراکت انہی کی ہے، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کے رہنما ان سربراہان پر منحصر رہتے ہیں۔
خان صاحب کا الٹا سسٹم ہے وہ الٹا اپنی پارٹی کے لوگوں پہ منحصر ہیں۔ انہوں نے سارے کام دوسروں کے پیسوں پہ کیے ہیں۔ اس وجہ سے خان صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونکنا انتہائی آسان ہے۔ خان صاحب نے بھی حکومت کے آنے کے بعد سے آج تک کوئی چابک دستی نہیں دکھائی کہ جو ان کے 'ارد گرد' ہیں یہ سنبھل جائیں۔ الٹا وہ جملہ بازی کرنے پہ آ جاتے ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے کہا کہ ان کا 2 لاکھ روپے میں بھی گزارا نہیں ہوتا۔ ان کا جو منسٹر غلط کام کرتا ہے وہ کچھ عرصہ بعد دوبارہ اس کو کوئی قلمدان سونپ دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے کہ ان کا بہت زیادہ انحصار ہے ان لوگوں پہ۔
پہلے آٹا ختم اور پھر چینی کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا۔ اب دالیں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ مارکیٹ میں جہاں جہاں مافیا بیٹھا ہے اس حکومت کی نااہلی کو دیکھتے ہوئے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔
ازراہ تفنن