کورونا وائرس کا نیا ویریئنٹ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟

اسے اتفاق کہیں یا پلاننگ لیکن پاکستان میں کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ جے این 1 کے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ایک جانب کورونا کے دوبارہ آنے کا خوف ہے اور دوسری طرف عوام سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کا اس وقت آنا پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کا حصہ ہے تا کہ انتخابات ملتوی کروائے جا سکیں۔

کورونا وائرس کا نیا ویریئنٹ انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟

'یہ جو کورونا کا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے یہ محض الیکشن مؤخر کروانے کا بہانہ ہے'، یہ کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما لبنیٰ احتشام ایڈووکیٹ کا جو جنوبی پنجاب میں پارٹی کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ایک بار پھر الیکشن ملتوی کروانے کی پلاننگ کی جا رہی ہے اور اس بار بہانہ کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ کا بنایا جا رہا ہے تا کہ لوگوں میں خوف و ہراس پھیل جائے اور وہ الیکشن کا نام تک نہ لیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلاشہ چند ممالک میں کورونا کے چند ایک کیسز رپورٹ ہوئے ہیں لیکن اب اس سے نقصان کا اندیشہ نہیں ہے کیونکہ اب کورونا وائرس کی وہ شدت نہیں ہے جو ایک ڈیڑھ سال قبل تھی۔ دوسری بات یہ کہ کورونا کا تو تب نقصان ہے جب لوگ گھروں سے نکلیں گے۔

لبنیٰ احتشام ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں، وہ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتیں لیکن ہمارا مؤقف ہے کہ الیکشن ہر حال میں ہونے چاہئیں، یہی ہمارے کپتان عمران خان کا پیغام ہے۔ پاکستان تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے جس کے جلسوں میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں، ہمیں یہ جلسے کرنے کی اجازت نہیں دے رہے اور دیگر کسی پارٹی کے پاس عوامی مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں عوام کو اکٹھا کر سکیں۔ اس لیے ان کا کورونا والا ڈرامہ بھی فلاپ ہو گا کیونکہ اب کورونا معمولی نزلہ زکام کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

کورونا وائرس کا پس منظر

عام انتخابات جمہوریت کا تسلسل ہیں، کسی بھی ملک کو آئین کے مطابق چلانے کے لیے انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کے لیے 8 فروری 2024 کا دن مقرر کیا ہے لیکن عوام میں تاحال الیکشن کے حوالے سے غیر یقینی کی صورت حال پائی جاتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار میاں کریم نواز کہتے ہیں کہ اسے اتفاق کہیں یا پلاننگ، بہرحال پاکستان میں دنیا کے دیگر ممالک کے بعد کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ جے این 1 کے کیسز سامنے آ گئے ہیں۔ اس بات سے ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ کورونا وائرس نے گذشتہ چند سال میں پوری دنیا میں بے تحاشا تباہی مچا دی تھی۔ دنیا بھر میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے، بزنس تباہ ہو گئے اور لاکھوں افراد جان سے گئے۔ ابھی کورونا کی گذشتہ تباہیوں کی بازگشت باقی ہے کہ نئے ویریئنٹ کے کیسز پہلے دیگر ممالک میں سامنے آئے، پھر پاکستان میں بھی ایک ساتھ 4 کیسز سامنے آئے۔ ایک طرف تو کورونا کے دوبارہ آنے کا خوف ہے اور دوسری طرف عوام یہ سمجھتے ہیں کہ کورونا وائرس کا اس وقت آنا پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کا حصہ ہے تا کہ الیکشن کو مؤخر کیا جا سکے۔

کورونا وائرس سے متعلق اعداد و شمار

دنیا میں کورونا وائرس کا پہلا کیس دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا تھا جس کے بعد چین میں کیسز کی تعداد خطرناک حد تک بڑھنے لگی تھی۔ اگلے 2 ماہ میں کورونا چین کے علاوہ دیگر 90 ملکوں میں پھیل چکا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے 30 جنوری 2020 کو باقاعدہ کورونا کو دنیا کی چھٹی ایمرجنسی قرار دے دیا تھا۔ 7 مارچ 2020 تک 90 ہزار لوگ کورونا سے متاثر ہو چکے تھے اور 3 ہزار ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ 9 اپریل 2020 تک کیسز کی تعداد بڑھ کر 14 لاکھ 36 ہزار 198 ہو گئی تھی جبکہ 85 ہزار 522 اموات ہو چکی تھیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پاکستان میں کورونا کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو سامنے آیا تھا جب 2 زائرین ایران سے پاکستان پہنچے تھے۔ پاکستان میں اب تک کل 15 لاکھ 77 ہزار 411 کیسز شناخت ہو چکے ہیں اور اس دوران 30 ہزار 644 اموات ہو چکی ہیں۔

محکمہ صحت کے اقدامات

چیف ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر محمد صدیق بلوچ کا کہنا ہے کہ بلاشبہ 2020 اور اس کے بعد کورونا وائرس نے دنیا بھر میں شدید تباہی مچائی تھی جس سے پاکستان میں لاکھوں لوگ متاثر ہوئے تھے۔ اب ایک بار پھر کورونا کے ایک ویریئنٹ کے کیسز بھارت کے بعد پاکستان میں بھی مثبت آئے ہیں۔ اس بات کو ہمیں کسی طور بھی معمولی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سے بچاؤ کے اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں سکریننگ کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور سیریس مریضوں کے نمونے لے کر ملتان لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھجوائے جا رہے ہیں لیکن تاحال یہاں سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ وہ بتاتے ہیں کہ الیکشن کی گہما گہمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، کارنر میٹنگز اور جلسے جلوس شروع ہو رہے ہیں جو کورونا کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ عوام کو کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے سماجی فاصلے اور ماسک کے استعمال کو یقینی بنانا چاہیے ورنہ صورت حال بگڑنے کا اندیشہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے قبل از الیکشن اور دوران الیکشن تاحال کسی قسم کی ہدایات موصول نہیں ہوئیں۔ الیکشن مؤخر ہونے کے حوالے سے بھی انہوں نے بتایا کہ انہیں کوئی ہدایت یا اطلاع اس حوالے سے موصول نہیں ہوئی۔

انچارج امراض سینہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال وہاڑی ڈاکٹر احمد توحید بھٹی کا کہنا ہے کہ سانس میں خرابی کے مریضوں کی تعداد سرد موسم میں بڑھ جاتی ہے لیکن جو مریض غیر معمولی حالت میں نظر آتا ہے اس کا ٹیسٹ لینے کے لیے نمونے ملتان بھجوا دیے جاتے ہیں۔ یہ نیا ویریئنٹ ہے اس لیے اس پر ابھی تجربات ہوں گے اور کوئی حتمی ٹیسٹ اس کے بعد ہی بتایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سانس کے مریض خاص طور اپنی صحت کا خیال رکھیں، سردی سے بچیں، ماسک کا استعمال ضروری بنائیں اور غیر ضروری سفر سے پرہیز کریں۔

سیاسی رہنماؤں کا مؤقف

پاکستان مسلم لیگ ن وومن ونگ کی ضلعی صدر نوشین ملک کا کہنا ہے کہ عام انتخابات پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں، ان کو مزید مؤخر کرنا ملک دشمنی کے مترادف ہو گا کیونکہ پوری دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہیں کہ کب اگلی حکومت آتی ہے۔ نگران حکومت کا کام محض شفاف انتخابات کرانا اور اقتدار اگلی حکومت کو منتقل کرنا ہوتا ہے۔ اگر کورونا وائرس کی بات کریں تو کوئی بھی ایسا کام نہیں جو کورونا کی وجہ سے رک گیا ہو، اس لیے عام انتخابات بھی ایک معمول کی سرگرمی ہے۔ جہاں باقی سب کام چل رہے ہیں وہاں الیکشن بھی ہونے چاہئیں کیونکہ ملکی ترقی بھی منتخب حکومت کے آنے سے ہی ممکن ہے۔ اگر ملک میں لاک ڈاؤن، سمارٹ لاک ڈاؤن یا ایسی کوئی صورت حال ہوتی تو حکومت کے پاس الیکشن مؤخر کرنے کا جواز تھا لیکن معمول کی صورت حال میں انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ق یوتھ ونگ کے ضلعی صدر محمد ندیم شیروانی کا کہنا ہے کہ ملک کی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود کا تقاضا فوری انتخابات کے سوا کچھ نہیں لیکن کورونا وائرس بھی ایک حقیقت ہے۔ اگر صورت حال قابو میں رہتی ہے تو الیکشن ضرور ہونے چاہئیں، لیکن اگر کسی قسم کا بھی کوئی خطرہ ہے تو الیکشن مؤخر کرنے میں بھی حرج نہیں کیونکہ سب سے پہلے عوام کی جان کی حفاظت مقدم ہے۔ اگر الیکشن ہوتے ہیں تو کورونا سے متعلق ہدایات پر سختی سے عمل کرانا چاہیے تاکہ کم سے کم نقصان ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت جو بھی فیصلہ کرے اس سے عوام کا وسیع تر مفاد جڑا ہونا ضروری ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما حاجی شمعون نذیر کا کہنا ہے کہ اس وقت تمام جماعتیں الیکشن چاہتی ہیں اور الیکشن کے انتظامات بھی مکمل ہونے کے قریب ہیں۔ تاحال کورونا وائرس کا کوئی شدید حملہ نہیں ہوا اس لیے الیکشن اپنے وقت پر ہوں گے اور جمہوریت کا راستہ ہموار ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا معمولی نوعیت کا ہے لیکن پھر بھی سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ تمام کارکنان کو احتیاطی تدابیر بارے آگاہ کریں کہ کارنر میٹنگز یا جلسوں میں ماسک پہن کر آئیں اور سماجی فاصلہ بھی قائم رکھیں۔

صحافی کیا کہتے ہیں؟

صحافی شیخ محمد عدنان کا کہنا ہے کہ انہیں الیکشن ہوتے نظر نہیں آتے کیونکہ صورت حال دن بہ دن تبدیل ہو رہی ہے۔ کبھی الیکشن کمیشن کا اعلیٰ عہدیدار استعفی دے دیتا ہے تو کبھی جج عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں الیکشن مؤخر یا معطل کرنے کا بہانہ صرف کورونا وائرس نہیں بلکہ کورونا اس کا ایک جزو ہے۔ اس وقت یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کورونا صرف ایسی صورت حال میں ہی کیوں آتا ہے جب حکومت کسی عمل کو مؤخر کرنا چاہ رہی ہوتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا الیکشن کمیشن کی جانب سے بیلٹ پیپر چھپائی میں تاخیر کرنا اور چھپائی روکنے کی خبریں پبلک کرنا، ایران کا پاکستان پر حملہ کرنا اور پاکستان کا جوابی وار کرنا، یہ سب اشارے ہیں کہ پاکستان کے بین الاقوامی سطح پر حالات سازگار نہیں ہیں، اس لیے الیکشن نہیں ہو سکتے۔ آپ دیکھیں گے کہ چند دن بعد صورت حال مزید گھمبیر ہو جائے گی اور حکومت اعلان کرے گی کہ الیکشن نہیں ہو سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت الیکشن ملتوی کرانے میں کامیاب نہ ہو سکی تو کم از کم 2 سے 3 ماہ کے لیے آگے ضرور لے جائے گی۔ عوام میں اس وقت الیکشن کو لے کر مکمل طور پر غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے۔

الیکشن کمیشن کا مؤقف

ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر وہاڑی حبیب اللہ جونیجو کا کہنا ہے کہ بلاشبہ کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ کے کیسز سامنے آ رہے ہیں لیکن تاحال انہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے ایسی کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں جس سے الیکشن میں تاخیر کرنے یا معطل کیے جانے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ معمول کے مطابق تمام انتظامات مکمل کرنے میں دن رات مصروف ہیں اور اگر کورونا وائرس کے حوالے سے کوئی ہدایات موصول ہوتی ہیں تو ان پر سختی سے عمل درآمد کرائیں گے تاکہ جمہوری عمل کی تکمیل کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں کو بھی محفوظ بنایا جا سکے۔