عمران خان کی مقبولیت ، صلاحیتیں اور قومی تقاضے
عمران خان کی مقبولیت یا صلاحیتوں سے کسی کو انکار نہیں اور عوام کی ان سے محبت کی بھی ایک لازوال داستاں رکھتی ہے ۔ جس کا آغاز ان کے کرکٹ کے دور سے شروع ہوا اور یہ سفر شوکت خانم ، نمل سے ہوتا ہوا ان کو سیاست میں لے آیا ۔
عوام نے ان کی ہر بات پر آمین کہا ، انہوں نے عالمی سازش کا اشارہ دیا عوام نے من وعن اس پر یقین کرلیا ، قومی ادارے کہتے رہے ایسی کوئی بات نہیں مگر عوام نے کہا جو خان صاحب کہتے ہیں وہ ہی حرف آخر ہے ۔ زبردست
آپکی کارکردگی بھی نمایاں تھی جسکی امید پر ذمہ داران نے سمجھا کہ خان صاحب کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے لہذا حکومت بھی ان کے سپرد کردی۔ ملکی ترقی اور معیشت کے اشارے اچھے نہیں تھے مگر اس کے باوجود پونے چار سال دئیے کہ خان صاحب اپنے زور بازو کو آزما لیں مگر ملک و قوم کو مایوسی ہوئی۔
لگتا یوں تھا کہ اب خان صاحب عوامی غیظ و غضب کا سامنا نہیں کر پائیں گے مگر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ خان صاحب جس بیانیے اور دھڑلے سے عوام میں نمودار ہوئے، سب اندازوں کو حیران کر کے رکھ دیا ۔ لانے اور نکالنے والے سب حیراں رہ گئے اور ان کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا پڑی مگر اس پر عمل در آمد ابھی حقائق اور خواہشات کے بیچ پھنسا ہوا ہے۔
اس ساری تمہید کا مقصد یہ تھا کہ خان صاحب یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ان کو وقت نہیں دیا گیا، خیبر پختونخواہ میں ابھی بھی ان کی حکومت ہے جو دسویں سال میں داخل ہونے والی ہے ۔ کشمیر ، بلوچستان ، گلت بلتستان میں اب بھی ان کی حکومت ہے۔ پنجاب کی حکومت ان کی باقیات کی بدولت درمیان میں لٹکی ہوئی ہے، وزیر اعلیٰ ابھی اپنے پیر جمانے کی کوششوں میں لگا ہے اور صوبہ بغیر کابینہ کے منصوبہ بندی اورانتظام و انتصرام کی راہیں تک رہا ہے۔
مرکز میں حکومت بس ایک دو ووٹوں کے فاصلے پر کھڑی ان کی پارلیمنٹ میں آمد کا انتظار کر رہی ہے مگر خان صاحب سڑکوں چوراہوں میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور اداروں کی ایسی تیسی کرہے ہیں اور نہ کسی آئینی اختیارات کو بخشتے ہیں اور نہ انسانی عزت و تکریم کو ۔ جس سے مقبولیت کو چار چاند تو لگے ہوئے ہیں مگر در حقیقت ان کے بارے پاکستان کے ذمہ داران اور سنجیدہ حلقوں میں تشویش پیدا ہورہی ہے، ان بارے تاثر تنزلی کا شکار ہے اور قوم و ملک کی خدمت کی امیدیں اور اعتماد چکنا چور ہورہا ہے۔ دانشور ان کی نیتوں کو پاکستان میں ایک دائمی انتشار سے جوڑ رہے ہیں جو ایک بے یقینی کی فضاء کو جنم دے رہا ہے ۔
اس کی چند وجوہات ہیں : جب 2014 میں انہوں نے یہی جلسے جلوس، مارچ اور دھرنوں کی سیاست شروع کی تھی تو ان کو ہر سطح پر ہمدردیاں حاصل تھیں لیکن اس کے باوجود حکومت اپنا وقت پورا کر گئی اور ان کو توقعات کے برعکس حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت تو ایمپائر کی انگلی کے اشارے بھی تھے اور اب کی بار تو میرے خیال میں انگوٹھا ہی لہرا رہا ہوگا۔
پھر 2018 میں حکومت دے بھی دی گئی مگر حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب کارکردگی نہ دکھا سکے اور قوم و ملک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں مگر وہ اس بات کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ۔ زمینی حقائق چیخ چیخ کر ان کی حکومت کی نا اہلیوں کا واویلہ کر رہے ہیں مگر وہ اپنی کامیابیوں کے تبلے بجاتے جارہے ہیں ۔ خیر ہوسکتا ہے کامیابیاں ہوئی ہوں مگر نظر ان کو آرہی ہوں جن کی توقعات پر یہ پوری اتری ہیں جن کی متاع ومنشاء پاکستان کو اس حالت میں دیکھنے کی تھی ۔
اب خان صاحب اور ان کے رفقاء ایک آئینی تبدیلی کو غیر ملکی سازش سے جوڑکر عوامی غضب سے بچنے میں کامیاب تو ہوگئے ہیں اور سیاسی دباؤ کا حربہ بھی کامیاب ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے مگر اس سے اٹھنے والے سوالات بہت ہی خطرناک منظر نامہ پیش کررہے ہیں جن کے خدوخال سیاسی انتشار کی ایک دائمی صورت حال کی طرف اشارہ دے رہے ہیں ۔ جن سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ خان صاحب اگر تو اقتدار میں رہے تو مزکورہ کامیابیوں سے پاکستان کی معیشت اور معاشرت کی ایسی تیسی کرتے رہیں گے اور اگر توقعات کے خلاف نتائج آئے تو پھر انکے موجودہ مشاغل پھر سے ایک نئی امنگ اور توانائی کے ساتھ میدان عمل میں ہونگے ۔ جو بہت ہی خطرناک تاثر ہے ۔
خان صاحب اگر تو ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں تو ان کو اپنے اور اپنے رفقاء کے بارے اس تاثر کو بدلنا ہوگا وگرنہ پاکستان اس طرح کے رویوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے ان رویوں کا اس ملک میں جوڑ توڑ نہیں ہے مگر وہ مصلحت کا شکار ہے ۔ اگر خان صاحب کے ساتھ عوام ہے تو دوسری جماعتوں اور سوچوں کے ساتھ بھی عوام ہے ، اگر ان کے بیانیے کو پزیرائی میسر ہے تو پھر ان کے مخالف بیانیوں کو بھی اتنی یا اس سے زیادہ پزیرائی میسر ہے ۔ جس کا ہلکا سا اشارہ کل مولانا فضل الرحمان صاحب نے اپنی تقریر میں اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے دے دیا ہے ۔
اگر یہ عوامی گروہوں ، مقبولیتوں اور پزیرائیوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوگیا تو ملک و قوم کے لئے بہتر نہیں ہوگا ۔ لہذا تمام سیاسی جماعتوں ، خاص کر عمران خان صاحب کو اس بارے سنجیدہ سوچنا ہوگا کہ اپنی سیاست ، معاشرت اور خدمت کو ہماری مذہبی ، قومی اور سیاسی اقدار کے حدود و قیود سے مزین رکھیں اور اپنی سوچ ، عمل اور رویوں سے ابھرنے والے تاثر کو قبولیت کی حدود سے باہر نہ جانے دیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عوام ، سیاسی قائدین ، قومی وسائل اور اداروں کی صلاحیتیوں اور توانائیوں کا استعمال غلط سمت میں نہ ہو بلکہ صحیح سمت میں استعمال ہوتے ہوئے قوم و ملک کی طاقت کا سبب بنیں ۔