عالمی ادب سے جنہیں ذوق آگہی، اور الفت حاصل ہے، وہ ہومر کے دیومالائی کرشموں سے شناسا تو ہونگے۔ دیوی دیوتائوں کی اندرونی کھینچا تانی کا تختہ مشق ناتواں انسان بنا رہتا ہے۔ دیوتائوں کا ایک دوسرے کے لئے حسد، بغض، نفرت اور رقابت کا قہر انسانوں پر ٹوٹتا ہے۔
دیوتائوں کی ایک دوسرے کے خلاف جنگ وجدل، مہمات ومحاذ آرائیاں زمین پر بسنے والے بے چارے انسانوں کے کشت وخون سے خاکہ نشین وظہور پذیر ہوتی ہیں۔ ایک دیوتا کا منظور نظر انسان دوسرے دیوتا کے دربار میں لعنتی ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک دیوتا کا " لاڈلا " دوسرے دیوتا کی فائلوں میں گہنگار مانا جاتا ہے۔
ایک دیوتا اپنے ہیرو کو تخت نشین کرتا ہے تو مخالف دیوتا اس کو تاریک سمندروں کی طرف اچھال دیتا ہے، جہاں وہ فلک شگاف موجوں سے برسر پیکار رہتا ہے یا پھر اجاڑ جزیروں میں خاک پھونکتا ہے۔
ہومر کی طلسماتی دنیا میں بشری زندگی دیوتائوں کی ناراضگی، مسرت، لڑائی، مقابلہ بازی اور آسمانی کھیل تماشوں پر ٹکی ہوتی ہے۔ قدیم یونانیوں کے ذہن ہومر کی دیوتا نگاری سے قبل بھی "نادیدہ طاقتوں" کے اسیر تھے اور "غلامی" کی زنجیر کو ڈھیلا کرنے والا پہلا شخص میلٹس کا تھیلس تھا جس نے محض یہ بے ضرر سا نعرہ بلند کرکے کہ کل اشیا عالم کا ماخذ وجوہر آب ہے۔ دیوتائوں اور انسانوں کے درمیان دراڑ ڈال دی تھی۔ پھر تھیلس کے بعد آنے والے اس دراڑ کو مزید وسیع کرتے چلے گئے۔
دیوتائوں کے شکنجے میں پھنسی مملکت کو بھی کسی تھیلس کا انتظار رہتا ہے جو بس اتنا بول کر دیوتا شکن بن جاتا ہے کہ مملکت کا فیصلہ اس میں بسنے والی رعایا نے کرنا ہے۔ دیوتائوں کی دلجوئی ولذت پرستی کے لئے راج دھانی کا جو دستر خواں سجایا جاتا ہے۔
اس پر خاک پڑنے کا وقت بھی آتا ہے۔ ہاں ُسنو! کہ وہ وقت بھی آتا ہے جب تخت کی بجائے تخت گر گرائے جاتے ہیں۔ جب تاج اچھالنے کی بجائے تاج پہنانے والے نادیدہ ہاتھ کاٹ دیئے جاتے ہیں۔
سنو! رات بڑی پرآشوب وہنگامہ خیز ہو گئی ہے۔ گہرے اندھیروں میں ابتلائوں کے اژدھام بھوکے درندوں کی طرح چوکوں پر تاک لگائے بیٹھے ہیں۔ اب بیچ کا راستہ نہیں ہے۔ اب یا تو شہاب ثاقب کے جلتے ہوئے ٹکڑے انسانی سروں کو پاش پاش کر دیں گے یا پھر اس بھیانک رات سے وہ سحر طلوع ہوگی جس کی آرزو کسی حسن ظن رکھنے والے اہل نظر کے دل میں مچلی تھی۔