پردیس تو اور بھی تنہا کر دیتا ہے

پردیس تو اور بھی تنہا کر دیتا ہے
جسبھیر سے میری پہلی ملاقات کوئی تین سال پہلے میری بیٹی کے سکول کے باہر ہوئی تھی، جہاں وہ اپنی نواسی کو چھوڑنے آئی تھیں۔ تب سے اُن سے ملاقات میرے روز کے معمول میں شامل ہے۔ ہم دونوں کو ہی ایک دوسرے سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ جسبھیر کی عُمر کوئی پچپن یا ساٹھ سال ہو گی۔ اُن کی نواسی اور میری بیٹی ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں۔ اُن کا تعلُق انڈیا سے ہے۔ جسبھیر کو کینیڈا آئے ہوئے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اُن کی ایک عدد شادی شدہ بیٹی ہے، گُرپریت، اور دو بیٹے ہیں جو ابھی کم عُمر ہیں۔ گُرپریت نے والدین کو سپانسر کیا تو بھائی ڈیپینڈنٹ چلڈرن کی حیثیت سے والدین کے ساتھ ہی ایمیگریشن پر کینیڈا آ گئے۔

گرپریت بینک میں جاب کرتی ہیں اور اُن کے کام کے اوقات روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کو اکثر صبح سات بجے گھر سے نکلنا پڑتا ہے۔ گُرپریت کے بھائی ٹرک چلانے کا کام کرتے ہیں۔ جسبھیر صبح پانچ بجے اُٹھتی ہیں اپنے خاوند کو ناشتہ دیتی ہیں، نواسے نواسی کو اسکول کے لئے تیار کرتی ہیں، ناشتہ کرواتی ہیں اور پھر سکول چھوڑ کر آتی ہیں۔ واپس جا کر بیٹوں کو ناشتہ دیتی ہیں اور پھر گھر کے باقی کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں؛ جن میں دوپہر کا کھانا بنانا، کپڑوں کو دھلنے کے لئے مشین میں ڈالنا، صفائی کرنا، سوکھے ہوئے کپڑوں کو تہہ کرنا شامل ہے۔ جب تک وہ ان سب کاموں سے فارغ ہوتی ہیں، دوپہر ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر کو دوپہر کا کھانا دیتی ہیں اور پھر بچوں کو لینے سکول چلی جاتی ہیں۔ اُن کے شوہر کسی حادثے کی وجہ سے معذور ہیں اس لئے جاب نہیں کر سکتے۔

بچّوں کو سکول سے واپسی پر اُن کو بھی کھانا کھلاتی ہیں اور پھر پانچ بجے تک اُن کے ساتھ رہتی ہیں یا جب تک گرپریت گھر واپس نہ آ جائیں۔ یہ جسبھیر کا روز کا معمول ہے۔ پانچ بجے کے بعد جسبھیر اپنی عبادت میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ عبادت کرنے سے اُن کا رب خوش ہوتا ہے اور اب اُن کو بس اسی کام سے سکون ملتا ہے۔ وہ  مُجھے روز بتاتی ہیں کہ وہ کس قدر تھک جاتی ہیں، وہ اپنا گھر خریدنا چاہتی ہیں لیکن اُن کے بیٹے اتنے پڑھے لکھے نہیں ہیں کہ کینیڈا میں اچھی جاب کر سکیں۔ جو پیسے وہ کماتے ہیں اُن سے الگ گھر لینا ابھی ممکن نہیں ہے۔ 

یہ انڈیا سے آئی ہوئی بزرگ خاتون کی صرف ایک مثال ہے اور میں نے اس کے علاوہ متعدد بزرگ پاکستانی اور انڈین خواتین سے گفتگو کے درمیان یہ جانا کہ یہ بزرگ کس قدر تنہائی اور ڈپریشن کا شکار ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر والدین کو ان کے بچوں نے سپانسر کر کے بلایا ہے۔ بہت سے بزرگ یہاں کی تنہائی سے تنگ آ کر واپس انڈیا اور پاکستان چلے جاتے ہیں۔ جسبھیر بھی اپنے حالات سے خوش نہیں ہیں۔ وہ جاب کر کے پیسے کمانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کے پاس جو بھی رقم تھی وہ اُنھوں نے اپنے بچّوں پر خرچ کر دی اور اب اس عُمر میں وہ ہر چیز کے لئے اپنے بَچّوں پر انحصار کرتی ہیں۔

ان بزرگ خواتین اور حضرات کی تنہائی کی ایک وجہ انگریزی زبان کا نہ آنا بھی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے یہ بزرگ نہ اس معاشرے کا فعال حصہ بن سکتے ہیں، نہ اپنی رونی کسی کو سنا سکتے ہیں۔ بہت سے واپس بھی نہیں جا سکتے کیونکہ اُن کے سب بچے یہاں آ گئے ہیں۔ اب واپس کس کے پاس جائیں؟ میں روزانہ جسبھیر کو حوصلہ دیتی ہوں کہ ایک دن آئے گا کہ اُن  کے بیٹے اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے اور اپنا الگ گھر خریدنے کے قابل ہو جائیں گے۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ جسبھیر کو ابھی ایک لمبا عرصہ انہی حالات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اُس کے بعد بھی اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ کبھی ان گھریلو ذمہ داریوں سے بری ہو سکیں گی اور اپنے لیے بھی کُچھ کر سکیں گی؟