کینیڈا کے شہر لندن اونٹاریوں میں پیش آنے والے ہولناک واقعے نے دنیا بھر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے، اور اس واقعہ کو لے کر یقینی طور پر مختلف لوگ اپنی اپنی تحریریں ، کالمز، بلاگز اور ولاگز لے کر خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی رابطوں کے تمام ہی ویب سائٹس پر لوگ اپنے جذبات اور دکھ کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کر رہے ہیں۔
لندن اونٹاریو میں ہونے والی یہ دہشت گردی چونکہ ایک مسلمان خاندان سے وابستہ تھی، اس لئے اس پر دنیا بھر سے ری ایکشن آنا لازمی تھا، اگرچہ کینیڈین شہریوں کا رد عمل کچھ مختلف ہے لیکن اس پر آگے چل کر بات ہوگی۔ مسلم امہ کی رہنمائی کرنے کا دعوی کرنے والی ریاست پاکستان نے اس پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جاں بحق ہونے والے خاندان کا تعلق پاکستان سے براہ راست تھا۔
جیسے ہی یہ خبر دنیا بھر میں پھیلنا شروع ہوئی کہ ایک مسلم خاندان کو ایک بیس سالہ سفید فام نوجوان نے مذہبی منافرت کی وجہ سے جان بوجھ کر باقائدہ سوچ سمجھ کر نشانہ بنایا ہے تو پاکستانیوں کے جذبات بھڑک اٹھے، یہاں جب پاکستانی کہا جا رہا ہے اس سے مطلب وہ پاکستانی جو پاکستان میں رہتے ہیں، جبکہ کینیڈا میں مقیم کمیونٹی کے لوگوں کا غم مختلف تھا۔
پاکستانی سرکار سے لے کر اپوزیشن پارٹیوں اور سول سوسائٹی نے اس پر غم اور غصہ کا اظہار کیا، جبکہ کینیڈین پاکستانیوں نے شدید غم اور دکھ کا۔ غصہ کا اظہار بھی کہیں کہیں دیکھنے کو ملا لیکن اکثریت نے متاثرہ خاندان کے دکھ کو اپنا سمجھا اور غصہ والا کام پاکستان کے پاکستانیوں پر چھوڑ دیا۔ اس کی شاید وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بحیثیت پاکستانی قوم ہم پہلے غصہ کرتے ہیں بعد میں غم۔ یہی کچھ وزیر اعظم، وزیر خارجہ، بلاول بھٹو اور دیگر رہنماوں کی گفتگو میں دیکھنے کو ملا۔
شاہ محمود قریشی تو اسلام آباد میں کینیڈین ہائی کمشنر سے ملاقات بھی کربیٹھے اور وہ شریف خاتون بھی صبح صبح شلوار قمیض پہن کر چلی آئی۔ اگرچہ حکومت ِ کینیڈا اور اسکی سرکاری مشینری اپنے فرائض بہ احسن و خوبی طریقے سے نمٹا رہی ہے، اور مقامی مئیر اور اس کے زیر انتظام لندن پولیس نے انتہائی پیشہ ورانہ طریقے سے ملزم کو گرفتار کرکے اس پر کیس دائر کیا اور فوری عدالت میں اس کی پیشی بھی کروادی، یہاں پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں کہ اس معاملے میں حکام نے کسی بھی قسم کی کوئی کسر چھوڑی ہو۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور اپوزیشن رہنما جگمیت سنگھ سمیت دیگر رہنما فوری طور پر اونٹاریو کے اس سرحدی علاقے میں جا پہنچے اور وہاں موجود ہزاروں افراد کے ساتھ مل کر دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ انہوں نے تو ہمیں یہ موقع بھی فراہم نہ کیا کہ ہم یہ مطالبہ کرتے کہ وزیر اعظم کب اپنے گھر سے نکلے گا اور تعزیت کرے گا۔ یہ سہولت ابھی ہزارہ اور گلگت کے لواحقین کو ہی میسر ہے جو اپنے پیاروں کی لاشیں لیئے اپنے لیڈر کا انتظار کرتے ہیں جس پر انہیں جواب یہ ملتا ہے کہ میں لاشوں سے بلیک میل نہیں ہوتا۔
اب آیئے سمجھتے ہیں کہ اس ساری تمہید کا مقصد کیا تھا۔ لندن اونٹاریو کی اس خوبصورت فیملی کے بہیمانہ قتل پر پورے کینیڈا نے اسے ایک کینیڈین فیملی کا قتل قرار دیا اور ساتھ میں انہیں مسلمان بھی کہا۔ یہ بات بہت بعد میں سامنے آئی جب جماعت احمدیہ نے اپنے ایک خط کے ذریعے اس خاندان کے ساتھ اظہار تعزیت کیا کہ یہ پاکستان کے شہر لاہور سے ہجرت کرکے آنے والے ایک احمدی مسلمان لوگ تھے۔ کینیڈا نےہمیشہ ہی نہ صرف انہیں بلکہ بریلوی، شیعہ ، دیوبندی ، بوہری ، آغاخانی سبھی کو مسلمان قرار دیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ اس ملک کی شہریت پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ایک اور بات جو قارئین کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیس سالہ نوجوان قاتل (دہشت گرد) نے اپنی محدود علم کے باعث اس خاندان کو جو عشائیہ کے بعد چہل قدمی کر رہا تھا، صرف اس بنیاد پر نشانہ بنایا کہ وہ دیکھنے میں اسے مسلمان لگے، یعنی کہ اگر ہندوستان کی کوئی پنجابی سکھ فیملی بھی اس وقت اپنے بزرگوں کے ساتھ شلوار قمیض پہن کر یا پاکستان کی کوئی عیسائی فیملی یا کوئی اور گندمی رنگت رکھنے والے لوگ اس وقت وہاں موجود ہوتے تو یہ شخص انہیں بھی بنا سوچے کچل دیتا۔
نسلی امتیاز اور مذہبی منافرت کے درمیان موجود اس فرق کو سمجھنے کی شدید ضرورت ہے ، جو کہ کینیڈا میں رہنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک غیر مسلم شدت پسند نوجوان کے اس حملے کے بعد عوام کی جانب سے کسی اور غیر مسلم کمیونٹی کے خلاف کوئی رد عمل دیکھنے کو نہیں ملا، یہاں نہ تو کوئی ممتاز قادری بنا نہ ہی کوئی سلمان تاثیر، نہ ہی یہاں کا سربراہ عمران خان ہے اور نہ ہی یہاں پر کوئی تحریک لبیک ۔ کینیڈا میں قانون اور آئین سب سے پہلے اور سب سے اوپر ہے ۔
گندمی رنگت ہونے کی وجہ سے اس نسلی امتیاز کے وجود کا سب کو احساس ہے اور حکومت بھی اس معاملے پر سنجیدہ ہے ، میڈیا میں بار بار اس حادثے کا ذکر سن کر کینیڈا میں رہائش پذیر عام لوگوں میں اور کوئی رد عمل دیکھنے کو ملا ہو ایا نہیں، لیکن عام گھریلو خواتین، مائیں بہنیں اور مرد اب راہ چلتے اپنے پیچھے آتی ہر گاڑی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ دہشت گرد کی کوئی شہریت اور مذہب نہیں ہوتا اور اس کی ہر سطح پر نہ صرف مذمت بنتی بلکہ اس کے تدارک کی بھی اشد ضرورت ہے۔
کیا مملکتِ پاکستان میں ہم بحیثیت قوم دہشت گردی کا تدارک کر رہے ہیں یا سرپرستی؟یہی سوال کینیڈا کی خوفزدہ ماوں بہنوں اور بھائیوں کا اپنی ریاست پاکستان سےہے!!