پاکستان، اسرائیل سفارتی تعلقات: سب کس کے اشارے پر ہوا؟

پاکستان، اسرائیل سفارتی تعلقات: سب کس کے اشارے پر ہوا؟
امریکی جریدے واشنگن پوسٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے سعودی عرب کا خفیہ دورہ کیا اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی ہے۔

اطلاعات کے مطابق ملاقت میں امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو اور خفیہ ایجنسی موساد کے سربراہ یوسی کوہن بھی موجود تھے۔ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی پر غور کیا گیا۔

اسرائیلی پرائم منسٹر آفس نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ نیتنیاہو کی اس خفیہ پرواز کا پتہ پروازوں سے باخبر رکھنے والی ویب سائٹس سے لگا، جب اسرائیلی وزیر اعظم کے طیارے نے سعودی شہر نیوم میں لینڈنگ کی۔

ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اتوار کے روز سعودی عرب گئے جہاں انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو سے ملاقات کی، یہ بات ایک اسرائیلی عہدیدار نے پیر کو عبرانی میڈیا کو بھی بتائی۔

نیتن یاہو بحیرہ احمر کے شہر نیوم میں ایک اسرائیلی اور سعودی رہنما کے مابین پہلی مرتبہ معروف اعلیٰ سطحی ملاقات کے لئے پانچ گھنٹوں کے لئے موجود تھے۔

دوسری جانب سعودی وزرات خارجہ نے اس خفیہ ملاقات کی تردید کر دی ہے اور انکا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیلی آفیشلز کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی مگر دوسری طرف اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسی خبروں کی تصدیق یا تردید نہیں کی جاتی۔ یاد رہے کہ جب 2005 میں پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کی دورہ امریکہ پر ایک لابی میں ’اچانک‘ اسرائیلی وزیر اعظم ایریئل شیرون سے مڈبھیڑ ہو گئی تھی تو پاکستان کی طرف سے تو اسے حادثاتی ملاقات کہا گیا تھا لیکن اسرائیل نے واضح طور پر بیان دیا تھا کہ ہماری کوئی ملاقات حادثاتی طور پر نہیں ہوا کرتی۔

اس سے قبل پومپیو نے پیر کے روز کہا تھا کہ انہوں نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سے ایک رات قبل ایک اہم میٹنگ کی تھی، کیونکہ انہوں نے اسرائیل اور خلیجی ممالک میں رک جانے والے سات ممالک کے دورے کو مکمل کرلیا تھا لیکن انہوں نے اسرائیلی رہنما کی موجودگی کی اطلاع نہیں دی۔

یہ اطلاعات تب سامنے آئیں جب ٹویٹر صارفین نے دیکھا کہ نجی جیٹ طیارے نے اتوار کی شام تل ابیب اور نیوم کے درمیان سفر کیا ہے جس سے ایک اعلی سطحی اجلاس کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا ہے۔نیتنیاہو نے اتوار کی رات کورونا وائرس معاملات پر کابینہ کا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن انہوں نے یہ اجلاس ایک دن قبل ملتوی کر دیا۔

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ملاقات کو ایران کے معاملے پر اہم پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف سعودی اسرائیل تعلقات بہتر کرنے کی کوشش میں ہے جو کہ اس ملاقات کی صورت ایک اہم پیش رفت قرار دی جارہی ہے۔ اسرائیلی رہنما کا سعودی عرب کا سفر اسرائیل کے ساتھ خلیجی تعلقات میں تبدیلی کا لمحہ ہے جس کو ٹرمپ انتظامیہ کے زور پر حالیہ مہینوں میں تقویت ملی ہے۔نیتنیاہو نے مئی 2019 میں ایک اور خلیجی ملک عمان کا خفیہ دورہ کیا تھا جس کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔

اس وقت انٹرنیشنل میڈیا میں اسرائیلی وزیر اعظم کے خفیہ دورہ سعودیہ کی دھوم ہے۔ ہر طرف سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ کہیں سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے تو کہیں پر نئے مواقع کے حوالےسے بات کی جا رہی ہے۔ تاہم اب پاکستان میں بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے اچانک بحث کا آغازہوا ہے۔

اس وقت ٹویٹر پر ٹرینڈ بھی اسرائیل کے نام سے چل رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس بحث کا مرکز معروف اینکر پرسن مبشر لقمان بنے ہوئے ہیں۔ مبشر لقمان ایک اسرائیلی ٹی وی پر جلوہ افروز ہوئے ہیں اور وہاں انہوں نے اسرائیل کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ایک عظیم ملک ہے اور اسرائیلی ایک اہم قوم ہے۔ وہ سروائیورز ہیں۔ اسی طرح پاکستان بھی ایک عظیم ملک ہے اور پاکستانی بہت ہی مضبوط اورعظیم قوم ہیں۔ اس لئے یہ دونوں کے فائدے میں ہے کہ یہ اپنے تعلقات قائم کریں۔ اس پر میزبان کے سوال پر کہ کیایہ سب کرنا پاکستانی حکومت و ریاست کے لئےآسان ہوگا، انکا کہنا تھا کہ یہ ستر سالوں کی دشمنی کی داستان ہے جو کہ پلک جھپکتے میں ختم نہیں ہوگی۔ پاکستانی اسرائیل کے بارے میں سوائے منفی باتوں کے کچھ نہیں جانتے، نہ ہی اسرائیلی پاکستان کے بارے میں کچھ اور جانتے ہیں۔ ہمیں عوام کو شعور دینا ہوگا انہیں اس معاملے کا دوسرا زاویہ دکھانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور اسرائیل جب بھی ہاتھ ملائیں انہیں یہ براہ راست کرنا چاہیے۔ کسی تیسری ریاست کو بیچ میں نہیں پڑنا چاہیے۔

اس حوالے سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اچانک سے حکومت کے حامی صحافی اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حق میں دلائل دینا شروع کر چکے ہیں۔ سینیئر اینکر کامران خان نے سعودیہ کے اس مبینہ خفیہ دورے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ پاکستان کو بھی اپنی اسرائیل پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے جیسا کہ خدام الحرمین شریفین اور ہمارے دیگر عرب بھائیوں کی جانب سے اشارہ دیا گیا ہے۔

گو کہ سعودی وزیر خارجہ نے اس معاملے پر لب کشائی کی ہے اور کہا ہے کہ شہر نوم میں جس ملاقات کو اسرائیلی وزیر اعظم کے خفیہ دورے سے جوڑا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔ یہاں صرف امریکی حکام تھے، کوئی اسرائیلی حکام یہاں موجود نہ تھے۔

اس حوالے سے حتمی بات کے لئے سب نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف دیکھا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اسرائیل پر پوزیشن واضح ہے اور ہماری یہ پوزیشن تبدیل نہیں ہوئی۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان سے اس حوالے سے ایک انٹرنیشنل میڈیا کے انٹرویو کے دوران سوال ہوا تھا جس پر انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان کا مؤقف وہی ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح نے دیا تھا۔ وہ یہ کہ جب تک فلسطین کا منصفانہ حل نہیں نکلتا تب تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔

تاہم، اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھے جانے والے صحافیوں کی یکایک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی وکالت سے واضح ہے کہ یہ معاملہ یہیں نہیں رکے گا۔ ان صحافیوں کی ٹوئیٹس اور ویڈیو پیغامات سے واضح ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔ پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا ایک قریبی ساتھی ہے، ہماری معیشت ان کے مرہونِ منت ہے۔ گذشتہ چند ماہ میں سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے 3 ارب ڈالر نہ صرف واپس مانگ لیے ہیں، ساتھ میں ادھار تیل دینا بھی بند کر رکھا ہے۔ لاکھوں پاکستانی خلیجی ممالک میں مقیم ہیں جہاں سے وہ اپنے خاندان والوں کے لئے سالانہ اربوں روپے بھیجتے ہیں اور پاکستان کی معیشت میں یہ رقم اہمیت کی حامل ہے۔ اب تک پاکستان کو یہ معمہ درپیش تھا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کی لڑائی میں ہمارے لئے لازم تھا کہ عربوں کے ساتھ کھڑے ہوں جن پر ہماری معیشت منحصر ہے۔ اب اگر اسرائیل اور عربوں کی ہی آپس میں دوستی ہو گئی ہے تو پھر اسرائیل سے تعلقات نہ بنانے کی معاشی وجہ تو ختم ہو جاتی ہے۔ رہ گئے انسانی حقوق تو جیسے چین میں رہنے والے اوئیغر مسلمانوں سے متعلق ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر بھی بطور ریاست چپ سادھنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ آنے والے دنوں میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات سے متعلق آپ زیادہ سے زیادہ بات سنیں گے، اور ہماری حکومت جو کہ مسلسل اس پالیسی میں تبدیلی پر انکاری نظر آ رہی ہے، میڈیا دباؤ کے تحت مجبوراً معاملات کو اسی سمت میں بڑھانے پر مجبور دکھائی دے گی۔

مثال کے طور پر غریدہ فاروقی کے یہ ٹوئیٹ جو انہوں نے گذشتہ برس کی تھی جس میں وہ پاکستان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے کی وکالت کرنے والوں کو طعنہ دیتی نظر آتی ہیں، اب قصہ ماضی ہو چکا ہے۔ ان کا نیا ٹوئیٹ یہ ہے کہ وہ تو ہمیشہ سے اسرائیل سے متعلق پالیسی پر نظرِ ثانی کی خواہاں رہی ہیں۔

اسی طرح گذشتہ برس تک ان کے خیال میں اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان پر میزائیل حملہ کرنے جا رہا تھا، اور ہماری چاق و چوبند انٹیلیجنس ایجنسیوں نے یہ منصوبہ ناکام بنایا۔

مگر اب وہ بھی جان گئی ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ حالات بدل رہے ہیں۔ پالیسیاں تبدیل ہو رہی ہیں۔ آج کی بدلی ہوئی دنیا میں آپ کو اپنی سوچ بھی بدلنا ہوگی۔ وہ کہتی ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا سے سیکھنے کو ایک ہی بات ملے تو وہ اس کا پالیسیوں کو جذبات کی بنا پر نہیں، منطق کی بنا پر استوار کرنے کا چلن ہے۔