مودی سرکار کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات کشیدہ ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستان بین الاقوامی برادری کی طرف دیکھ رہا کہ وہ بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کی مذمت کرے اور بھارت کو کشمیریوں کا حق خودارادیت صلب کرنے سے روکے۔ لیکن، مسئلہ کشمیر کو لے کر عالمی برادری کی طرف سے کوئی واضح اور مثبت پیش رفت سامنے نہیں آ رہی۔
اس صورتحال میں پاکستان اپنے سب سے قابل بھروسہ سمجھے جانے والے دوست عرب ممالک اور مسلمہ امہ کی جانب دیکھ رہا ہے۔ مسلمہ امہ کے طاقتور بلاک کے بڑے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب اس معاملے پر پُراسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ اس حوالے سے بلال کوچے نامی کشمیری صحافی نے الجزیرہ کی ویب سائٹ پر ایک آرٹیکل لکھا ہے جس میں اُن تمام محرکات کو بیان کیا گیا ہے جو خلیجی ممالک کو مسئلہ کشمیر پر کھل کر بولنے سے روک رہے ہیں۔
بلال کوچے نے لکھا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ نے گزشتہ ہفتے نئی دہلی کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اسلام آباد کا سفر کیا ہے۔ اس دورے میں متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان اور سعودی وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، طاقتور فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقاتیں کی ہیں۔ لیکن، ان ملاقاتوں کے بعد اپنے علامیے میں انہوں نے بھارت کے خلاف کسی بھی طرح کے سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ دہائیوں کے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کے باوجود خلیجی ممالک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت اور بھارت کے کریک ڈاؤن کی مذمت سے دور ہی رہے ہیں۔
سعودی عرب نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بھارتی اقدام اور کرفیو پر تشویش کا اظہار کیا جبکہ متحدہ عرب امارات نے اسے نئی دہلی کا داخلی مسئلہ قرار دے کر اپنا دامن جھاڑ لیا۔ دیگر خلیجی ممالک جن میں کویت، قطر، بحرین اور عمان شامل ہیں، انہوں نے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے وہاں کرفیو نافذ کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں شروع کیں تو دوسری طرف متحدہ عرب امارات نے مودی کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ سے نوازا۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی کو تقویت بخشنے والے اور اپنی نگرانی میں بھارتی مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے والے نریندر مودی کو 2016 میں سعودی عرب نے بھی اپنا سب سے بڑا سویلین ایوارڈ دیا تھا۔
خلیجی ممالک بھارت کے اتنا قریب کیوں ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہے 100 بلین ڈالر کی تجارت جو بھارت ان ممالک کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت ان ممالک کو لاکھوں کی تعداد میں افرادی قوت بھی مہیا کرتا ہے جو ان ممالک کی معیشت کا پہیہ چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بلال کوچے نے اپنے آرٹیکل میں نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے کارکن منوج جوشی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ اچھے معاشی تعلقات استوار کیے ہیں، یہ دونوں ممالک مستقبل کو سامنے رکھ کر آگے بڑھ رہے ہیں کہ جب تیل ختم ہو جائے گا تو بھارت ایک ایسا ملک ہوگا جہاں وہ سرمایہ کاری کر سکیں گے، ایک ایسی بڑی منڈی والا ملک جس کے ساتھ پہلے ہی اچھے معاشی تعلقات ہیں۔
بھارت کی سعودی عرب کے ساتھ تجارت
گذشتہ دو دہائیوں کے دوران سعودی عرب اور بھارت کی دو طرفہ تجارت کے حجم میں 28 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ 2 لاکھ 7 ہزار سے زیادہ بھارتی سعودی عرب کی افرادی قوت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے تعلقات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے امیر ترین شہری مکیش امبانی نے گذشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب کی آرامکو کمپنی، ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ کے 20 فیصد حصص خرید رہی ہے۔ یہ بھارت میں سعودی عرب کی بڑی سرمایہ کاری ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ملکر 60 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ بھارت میں میگا ریفائنری بھی تعمیر کر رہے ہیں۔
بھارت کی متحدہ عرب امارات کے ساتھ تجارت
متحدہ عرب امارات اور بھارت کی دو طرفہ تجارت کا حجم 55 بلین ڈالر ہے، جبکہ دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سب سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کا تعلق بھارت سے ہے۔ متحدہ عرب امارات کی کل آبادی کا تقریبا 30 فیصد بھارتی شہریوں پر مشتمل ہے۔
بھارت اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے 80 فیصد پٹرولیم مصنوعات ان ممالک سے خریدتا ہے۔
بھارت کے مقابلے میں پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سالانہ دوطرفہ تجارت 3.77 بلین ڈالر ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ تجارتی حجم 8 بلین ڈالر ہے۔
یہ سب حقائق دیکھنے کہ بعد کسی حقیقت پسند پاکستانی کو خلیجی ممالک سے مسئلہ کشمیر پر واضح اور دو ٹوک مؤقف کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔
ہندوستانی خارجہ پالیسی پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار جوشی کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک اسلامی یکجہتی کے خواہاں نہیں ہیں۔ وہ اپنے قومی مفاد کے لئے بھارت کو زیادہ اہم دیکھتے ہیں۔ بلال کوچے نے لکھا ہے کہ ایک ہندوستانی سفارتکار تلمیز احمد جو سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات میں سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بجائے نئی دہلی نے مشرق وسطی میں "اسٹریٹجک مفادات" حاصل کیے ہیں۔ لیکن، ان مفادات کا تعلق مسئلہ کشمیر سے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سن 2000 میں بھارت نے ان ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات پر توجہ دی اور ان ممالک کے درمیان اعلی سطح کے ریاستی دوروں کی تعدد میں اضافہ ہوا ہے۔
ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زید مودی کو اپنا دوست کہتے ہیں۔ وہ 2017 میں ہندوستان کے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں مہمان خصوصی تھے۔ جبکہ سعودی شاہ عبداللہ بن عبد العزیز آل سعود کو 2006 میں مدعو کیا گیا تھا۔
پاکستانی سیاسی تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب اور امارات کے ردعمل کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی کارروائی کی حمایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے لئے خلیجی ممالک کا تعاون ہمیشہ مبہم تھا۔ مسلمہ امہ کی جانب سے جو بھی مؤقف آتا ہے وہ ہمیشہ او آئی سی کے پلیٹ فارم سے آتا ہے۔
خلیجی ممالک اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد کیوں پڑے اس حوالے سے بلال کوچے نے لکھا ہے کہ پاکستان کا سعودی عرب اور یمن کی جنگ میں فوجیں نہ بھیجنے کا فیصلہ خلیجی اتحادیوں کو اچھا نہیں لگا۔ سابق بھارتی سفارت کار احمد کے مطابق جی سی سی ممالک کا خیال تھا کہ اگر وہ خطرے میں پڑ گئے تو پاکستان کی مسلح افواج ان کی مدد کریں گی۔ لیکن، پاکستان کے یمن میں فوجیں نہ بھیجنے کے فیصلے سے ان کے خیال کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔
اسی طرح اسلام آباد، ایران اور سعودی عرب کشیدگی میں بھی کافی محتاط ہے اور بدستور ایران کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کو جاری رکھے ہوئے ہے، یہ بھی خلیجی ممالک کے بڑوں کو اچھا نہیں لگتا۔ ایران کے بارے میں پاکستان کا مؤقف ہی خلیجی ممالک اور پاکستان کے تعلقات میں سب سے زیادہ پریشان کن معاملہ ہے۔
متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے زیر قیادت ممالک کے گروپ نے 2017 میں جب قطر پر پابندیاں عائد کیں تو اس موقع پر بھی پاکستان کی غیر جانبداری نے ان تعلقات پر سوالیہ نشان لگایا۔
اس حوالے سے اسلام اور عالمی امور کے مرکز کے ڈائریکٹر سمیع العرین نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دونوں امریکہ، چین، ہندوستان یا اسرائیل جیسے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود کے ان علاقوں میں فلسطینیوں، ایغوروں یا کشمیریوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے ان دونوں حکومتوں سے کسی بھی ردعمل کی توقع نہیں ہے۔