رواں ماہ جہاں ایک جانب پاکستان میں داخلی سیاست انتشار کا شکار رہی ہے تو دوسری جانب علاقائی سیاست میں پاکستان سے متعلق نئے ابواب سے پردہ سرکتا ہوا نظر آرہا ہے۔ بات ہے پاکستان بھارت کے درمیان عرصہ دو سال سے سرد پڑے تعلقات میں اچانک سے سرائیت کر جانے والی حدت کا۔ اس وقت ہر طبقہ ہائے زندگی یہ سمجھنے میں مصروف ہے کہ اچانک سے ایک دوسرے کو مار دینے اور کاٹ دینے والے پاکستان اور بھارت کے کرتا دھرتا ایک دوسرے کو ماضی کو دفن کرنے کے مشورے اور بیماری سے شفا پانے کی دعائیں کیوں دے رہے ہیں؟ اور یہ بھی کہ دونوں کی سپاہ کے کمانڈر کیسے ایک دوسرے سے بات چیت پرآمادہ ہوگئے۔
تاہم اس بابت اب بین الاقوامی جریدے بلومبرگ نے سنسنی خیز انکشاف کیئے ہیں۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق پاک بھارت تعلقات میں گرمجوشی کے پیچھے متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے اعلیٰ ترین شخصیات ہیں۔ بلموبرگ کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے پر ایک عرصے سے کام ہو رہا ہے۔
اس منصوبے کے تحت سب سے پہلا کام اسلام آباد اور دہلی کے درمیان سفرا کی تعیناتی پر اتفاق ہوگا۔ دوسرا اور مشکل کام معطل شدہ پاک بھارت تجارت کی بحالی اور کمشیر کے مسئلے کا حل ہوگا۔ جبکہ دونوں ملکوں کے عہدہدار خیال کرتے ہیں کہ شاید تجارت کی بحالی سے زیادہ دونوں ممالک کو کچھ حاصل نہ ہو۔
بلومبرگ نے لکھا کہ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکی صدر بائیڈن افغانستان میں ایک وسیع الشراکت امن عمل کا آغاز چاہتے ہیں۔ افغانستان جہاں یہ دونوں ممالک اپنا اثررسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی بھارت چین کے ساتھ معاملات چاہتا ہے تو پاکستان امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو فعال چاہتا ہے۔
بلومبرگ کے مطابق دونوں ممالک کی حالیہ قربت کے پیچھے یو اے ای کا کردار ملک کے ولی عہد محمد بن زید النہان کی مرہون منت ہے جو کہ عرب خطے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے ذریعئے اپنے ملک کی پوزیشن تبدیل کر چکے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں اس پیش رفت کی کی تفصیل بمطابق واقعہ بیان کرتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے کہ یو اے ای کی جانب سے بہت سے ایسے اقدامات تھے جن سے یہ بھنک پڑتی تھی کی عرب ملک اس وقت پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لییے سرگرم ہے۔
سب سے پہلے نومبر 2020 میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے یو اے ای کے وزیر خارجہ سے انکے ملک کے دو روزہ دورے پر ملاقات کی تھی جس کی تفصیل میں بتای گیا کہ یہ باہمی دلچسپی کے معاملات کو زیر بحث لانے کے لیئے کی گئی تھی۔ جس سے اگلے مہینوں میں وزیر خارجہ شاہ محمود نے بھی یو اے ای کا دورہ کیا تھا۔ ساتھ ہی جب پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ ہوا تو یو اے ای ان مٹھی بھر ممالک میں تھا جس نے اس پیش رفت کو سراہا تھا۔
25 فروری کو یو اے ای کے وزیر خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان کو فون کیا اور اسکے فوراً بعد یہ پیش آیا کہ وزیر اعظم کے طیارے کو بھارتی ائیرسپیس استعمال کرنے اجازت دی جب کہ وہ سری لنکا جا رہے تھے۔ یہ ائیرسپیس 27 فروری کے بعد سے مکمل طور پر دو طرفہ بند تھی۔
اب جبکہ آرمی چیف نے بھارت کو ماضی دفن کرتے ہوئے آگے چلنے کی پیشکش کی ہے تو وہیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی وزیر اعظم عمران خان کو کرونا سے صحتیاب ہونے کی شبھکامنائیں بھجوائیں ہیں۔