'عمران نے صدر علوی کو عاصم منیر کی سمری پر دستخط کرنے سے روکنے کی کوشش کی'

'عمران نے صدر علوی کو عاصم منیر کی سمری پر دستخط کرنے سے روکنے کی کوشش کی'
صدر عارف علوی اور عمران خان کی لاہور میں ملاقات کے دوران عمران خان کا مطالبہ تھا کہ صدر عاصم منیر والی سمری پر اعتراض لگا کر اسے سپریم کورٹ بھجوانے کی بات کریں تا کہ اس پہ کھیلا جا سکے جبکہ ساحر شمشاد والی سمری منظور کر لیں۔ اس لیے فواد چودھری نے میٹنگ کے بعد یہ نہیں کہا کہ عمران خان نے سمری پر دستخط کر دینے کے لئے رضا مندی ظاہر کر دی ہے بلکہ فواد چودھری نے کہا کہ شام کو اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ عمران خان نہیں چاہتے تھے کہ صدر آج ہی سمری پر دستخط کریں لیکن صدر علوی نے اسلام آباد آتے ہی سمری پر دستخط کر دیے کیونکہ وہ اتنا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔ یہ کہنا ہے کالم نگار مزمل سہرودری کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں اظہار خیال کرتے ہوئے مزمل سہرودری کا کہنا تھا کہ پرویز الہیٰ نے بھی عمران خان کو سمجھایا ہے کہ سمری نہ رکوائیں، ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس وقت جنرل باجوہ کا ریٹائر ہو کر گھر جانا ان کے لئے ایک خودکش مشن ہے۔ عمران خان رات دن ان پر تنقید کریں گے اور پاکستانی سیاست میں اب وہ ایک سکیپ گوٹ کا کردار ادا کریں گے۔ میرے خیال میں پالیسی اور پوسچر کے کھیل میں ان کو مات ہو گئی ہے۔

معروف صحافی اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ ایوان صدر کا کام محض پوسٹ آفس کا ہے، انہوں نے مشاورت کے لئے لاہور جا کر اپنے حلف اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ سیاست دانوں کو صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئیے کہ سمری پر دستخط ہو گئے بلکہ انہیں صدر کے اس اقدام پر بھی سوال اٹھانا چاہئیے۔ ان کے مطابق صدر علوی نے آج کی ملاقات میں عمران خان کو سمجھایا کہ وزیراعظم کی جانب سے بھیجی گئی سمری پر دستخط کرنا میرے لئے لازم ہے کیونکہ آئین میں لفظ shall استعمال ہوا ہے اور میں سمری نہیں روک سکتا۔ فواد چودھری کو اعلامیہ جاری کرنے والی بات کے بات شٹ اپ کال چلی گئی تھی، اسی لئے ان کا کوئی بیان نہیں آیا۔

شریک میزبان مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ صدر علوی کا لاہور جانا دراصل ego tourism تھا۔ عمران خان کم از کم یہ چاہتے تھے کہ صدر سمری کو دو دن تک روک لیں اور جب میں اسلام آباد آ جاؤں اور تقریر کر لوں کہ میں نے کہا ہے صدر کو کہ دستخط کر دیں تو وہ اس اعلان کے بعد دستخط کریں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے شدید حمایتی صدر علوی کے دستخط کرنے پر راضی نہیں ہوں گے۔ جنرل ساحر شمشاد کے حوالے سے (ن) لیگ کے اندر تحفظات تھے جو آصف زرداری نے ختم کروائے۔ زرداری صاحب نے حکومت کو یہ بھی سمجھایا کہ آپ نمبر ایک اور نمبر دو کی ترقیاں کر دیں، کسی جانب سے کوئی اعتراض نہیں آئے گا۔

میزبان رضا رومی نے کہا کہ اپریل میں ایک گڑبڑ ہو چکی تھی تو اس لئے اب صدر مملکت دوسری مرتبہ رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔ آصف زرداری جب ملک کے صدر تھے اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے ملتے تھے تو یہ معاملہ عدالت میں لے جایا گیا تھا۔ اس وقت عدالت نے فیصلہ بھی سنا دیا تھا کہ صدر پارٹی رہنماؤں سے نہیں مل سکتے۔ آج عمران خان کی کیا حیثیت ہے جو صدر پاکستان ان سے مشورہ کرنے گئے تھے۔ صدر غیر سیاسی عہدہ ہے اور وہ اس طرح مشاورت نہیں کر سکتے۔

پروگرام ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔