سدھو پا جی زندہ باد

سدھو پا جی زندہ باد
خان صاحب وزیراعظم بن چکے ہیں۔ پہلے تو وہ فیس بک کے وزیر اعظم تھے اب تو سچی مچی کے صدر صاحب کے ہاتھوں حلف بھی اٹھا چکے ہیں۔ کالی شیروانی جو ان کا بہت عرصے سے خواب تھی وہ بھی پہن چکے ہیں۔ قوم سے خطاب تو وہ پہلے بھی کرتے رہتے تھے لیکن اب ذرا سرکاری حیثیت ثابت کر چکے ہیں۔ اب ان کو لائٹ لینا گھاٹے کا سودا ہے۔

واضح کرتے چلیں کہ بلاگ کا تعلق خان صاحب سے بالکل نہیں۔ لیکن وہ کیا ہے کہ وہ ہمارے بہترین دوست غلام رسول ہیں۔ جہاں دیکھیں وہی نظر آتے ہیں۔ خیر مذاق برطرف، یہ کہنا قطعی مبالغہ نہ ہو گا کہ خان صاحب کی سیاسی زندگی اور حال سے ہمارے جو بھی اختلافات ہوں ان کا ماضی ہمیشہ ہمارے لئے باعث صد افتخار رہے گا۔ وہ ایک قومی ہیرو رہ چکے ہیں اور اس ضمن میں عزت و تکریم کے بجا مستحق ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ کھیلنے والے ملکوں میں خان صاحب کے چاہنے والوں کی کمی نہیں۔

مسکراہٹ ان کا خاصہ ہے

خان صاحب کی طرح ان کے ایک پرانے کرکٹر دوست بھی اب سیاست کے میدان میں آ چکے ہیں۔ کمنٹری تو کئی کا مقدر ٹھہری۔ انہی میں سے ایک نام مشہور بھارتی کرکٹر نوجوت سدھو کا ہے۔ ہنستے مسکراتے خوش رنگ پگڑیاں پہنے سدھو پا جی کو دیکھتے ہی دل میں اک سرشاری کی کیفیت آ جاتی ہے۔ ایک مزاحیہ پروگرام میں جج کی حیثیت سے بھی آتے رہے ہیں۔ کپل شرما شو میں ہنسنے کا فریضہ بھی انجام دیتے آئے ہیں۔ مسکراہٹ ان کا خاصہ ہے۔



جیسے ہی خان صاحب کے وزیر اعظم بننے کا اعلان ہوا ان کے کئی دیرینہ دوستوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ سدھو پا جی، کپل دیو اور سنیل گواسکر کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کو خان صاحب کی تقریب حلف برداری کا دعوت نامہ بھی بھیجا گیا۔ لیکن سیاست بڑی ظالم چیز ہے۔ ان دو ملکوں کی کدورت کہاں کسی قسم کی دوستی کو پنپنے دے سکتی ہے۔ کپل دیو اور سنیل گواسکر صاحب کنی کترا گئے۔ البتہ سدھو پا جی جھٹ آ گئے۔ یاری ہو تو ایسی۔

سدھو پا جی اگر یہاں فائر کھول دیتے تو شاید وہاں ہیرو بن جاتے

خوب گھومے پھرے۔ کھایا پیا۔ پشاوری چپل خریدی۔ دلوں کو یوں تسخیر کیا کہ کیا کہنے۔ گہری گلابی پگڑی پہن کر تقریب حلف برداری میں جا پہنچے۔ جنرل باجوہ جو کہ خود بھی ایک پنجابی ہیں جلد ہی ان سے بغل گیر تھے۔ خیر باجوہ صاحب کو تو یہاں کچھ کہنے والا پیدا نہیں ہوا۔ لیکن سدھو پا جی پر ان کے ملک والوں کا غصہ ٹوٹ پڑا۔ سیاسی مخالفین نے بھی اس بات کا خوب فائدہ اٹھایا۔ بھارت میں ان کے خلاف ایک ملک گیر مہم کا آغاز ہوا۔ یہی سدھو پا جی اگر یہاں فائر کھول دیتے تو شاید وہاں ہیرو بن جاتے۔



اگر سدھو پا جی نے آ کر ہمیں ہی جیتا تو اس میں بھارت کا کیا گیا؟

ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ امن میں کس کا نقصان ہے۔ دو قریبی ہمسائے جن کی دیواریں تو کیا مائیں بھی سانجھی ہیں کب تک نفرت کی اس ہوا کو سینچتے رہیں گے؟ بھارتی فلمی اداکار ہم سب پاکستانیوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ اگر سدھو پا جی نے آ کر ہمیں ہی جیتا تو اس میں بھارت کا کیا گیا؟ اگر امن اس قدر فضول چیز ہے تو سفارت خانوں کا مقصد ہی کیا ہے؟

بقول سدھو پا جی کے دربار کرتارپور کے گردوارے کا راستہ کھول دیا جائے تو پنجاب کے دل پھر مل جائیں گے۔ اگر کل کو ہمارا مکہ جانا یوں مشروط ہو جائے تو کیا محسوسات ہوں گے؟ سکھوں کا یہاں اپنے مقامات مقدسہ کی زیارت مشروط کیوں ہے؟ اگر یہ پیشکش سن کر پا جی جذباتی ہو گئے تو کیوں نہ ہوں؟

کہانی دونوں طرف ایک جیسی ہے

خیر اگر پاکستان سے بھی رمیز راجہ جا کر بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کرتے اور ان کے آرمی چیف سے بغل گیر ہوتے تو سٹوری یہی ہوتی۔ بس کردار بدلتے۔ خدا جانے یہ نفرتوں کے سودے بکنا کب بند ہوں گے۔ کب تک عوام راج نیتی کی اس آگ میں جلتے رہیں گے؟

ہمارا مطالبہ ہے کہ نہ صرف سدھو پا جی کو پاکستان میں قومی یار کا درجہ دیا جائے بلکہ ان پر لازم قرار دیا جائے کہ ہر سال لاہور میں ریگل چوک سے دہی بھلے کھائیں۔ محبتوں کا یہ سفر یونہی جاری رہے۔ سن رہے ہیں نا پا جی؟