مطالعہ پاکستان میں 24 اگست 1930 کے پشتون سانحے کا کوئی ذکر کیوں نہیں؟

مطالعہ پاکستان میں 24 اگست 1930 کے پشتون سانحے کا کوئی ذکر کیوں نہیں؟
 

ہندوستان پر انگریز سامراج کے قبضے کے دوران پشتونوں نے مختلف شکلوں میں مزاحمت کی۔ خواہ وہ مسلح مزاحمت ہو یا عدم تشدد پر مبنی غیر مسلح مزاحمت۔ عدم تشدد پر مبنی مزاحمت میں چارسدہ سے تعلق رکھنے والے عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی قیادت میں پشتونوں کی تاریخی خدائی خدمتگار تحریک نے ناقابل یقین مزاحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیش بہا قربانیاں دیں۔ جب انگریزوں کے استعمار کے خلاف مزاحمت کی یہ بے مثال تحریک قومی شعور اور تشخص کےمطلوبہ اہداف کی طرف بڑھنے لگے تو فرنگی سامراج نے تشدد کے ذریعے اس کو کچلنے کا منصوبہ بنایا اور 23 اپریل 1930 کو قصہ خوانی بازار پشاور میں نہتے حریت پسندوں پر گولیاں برسا کر آزادی کے 272 پروانے شہید کر ديے۔ اس کے بعد مئى 1930 میں ٹکر مردان میں پورے کا پورا گاؤں جلا دیا گیا جب کہ 28 افراد کو بے دردى سے شہید کيا گيا۔ اگلی باری اتمانزئی کى تھى جہاں پر فرنگی فوج نے خدائی خدمت گاروں پر مشین گن چلائی جس سے دو خدائی خدمتگار شہید اور کئی زخمی ہو گئے۔

ایسے اور بھی بہت سارے واقعات موجود ہیں جہاں پر انگریز سامراج نے بے گناہ شہریوں کو مختلف طریقوں سے ظلم کا نشانہ بنایا۔

ایسا ہی ایک اور واقعہ 24 اگست 1930 کو بنوں کے علاقے سپین تنگی میں پیش آیا۔ اس بار عوام کو فرمان جاری کیا گیا تھا کہ سب اپنا اسلحہ جمع کروائیں۔ حکومت کا خیال تھا کہ پشتون اسلحہ دینے سے انکار کر دیں گے اور ان کو کچلنے کا آسان موقع ہاتھ آ جائے گا لیکن عوام نے اسلحہ جمع کرا دیا۔ مسجد قصابان سپین تنگی میں عوامی اجتماع منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ سپین تنگی کے مقام پر 24 اگست 1930 کو انگریز سامراج کے ظلم کےخلاف ایک جلسہ منعقد ہوگا۔ اِس اعلان کے بعد انگریز سرکار کی جانب سے فیصلہ کرنے والے دو زعما ہیبت خان اور رعیس خان کو گرفتار کر لیا گیا۔

جلسہ دوپہر کے بعد تھا لیکن ڈپٹی کمشنر گڈنی نے صبح سے وہاں پر پولیس، ایف سی اور فوج وغیرہ کو تعینات کر کے خونریزی کا منصوبہ بنایا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے ہمراہ تمام گھروں کی تلاشی لی اور پھر ان کے گھر سے سامان نکال کر ان کو آگ لگا دی لیکن عوام پھر بھی خاموش تھے۔ جلسے کی صدارت  قاضی فضل قادر کے سپرد تھی لیکن جب انگریز کپتان ایشرواٹ نے اُس کو ساتھیوں ایوب خان اور میر داد خان سمیت گرفتار کرنا چاہا تو عوام نے کہا کہ جلسہ ختم ہونے کے بعد مطلوبہ افراد خود گرفتاری دے دیں گے۔

یاد رہے کے اسی کپتان ایشرواٹ نے سانحہ قصہ خوانی میں بھی اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے سینکڑوں بے گناہ پشتونوں کو شہید کیا تھا۔ قاضی فضل قادر ایک حریت پسند رہنما اور ایک متقی اور پرہیزگار بزرگ تھے اور اُن کی حریت پسندی کا یہ حال تھا کہ اُنہوں نے اعلان کیا تھا کہ جب تک انگریز ہمارے وطن سے نہ نکلے تب تک وہ سیاہ لباس زیب تن کیے رہیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ اُس کو تور پوش بابا کے نام سے پُکارتے تھے۔

جلسے کے وقت سپین تنگی کے مقام پر ہزاروں لوگ جمع تھے جب کہ گورا فوج کا رسالہ گائیڈ جلسے کو تحویل میں لے چکا تھا۔ قاضی فضل قادر سٹیج پر کھڑے تقریر کر رہے تھے کہ فرنٹئر فورس کے کپتان ایش کرافٹ نے اپنے چار فوجیوں کے ساتھ سٹیج پر دھاوا بول دیا۔ کپتان نے قاضی فضل قادر کو داڑھی سے پکڑا اوران کی خوب توہین کر ڈالی۔ وہ قاضی صاحب کو سٹیج سے نیچے گِرانا چاہتے تھے لیکن قاضی صاحب نے مزاحمت کی۔ اسی دوران ایش کرافٹ نے پستول سے فائر کر کے حاجی فضل قادر اور ان کے ساتھ کھڑے ايک بزرگ کو گولیاں مار کر سٹیج پر ہی شہید کر دیا۔

جواب میں جلسے میں شریک نوجوان جندل شاہ نے درانتی سے کپتان پر حملہ کیا۔ پھر کیا تھا، اندھا دھند گولیوں سے جلسے کے شرکا کے سینے چھلنی کر دیے گئے۔ معلومات کے مطابق فائرنگ میں تقریباً 80 کےقریب بے گناہ لوگ شہید جب کہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ گرمی کا موسم تھا اور زخمیوں کو علاج معالجہ تو کیا، پینے کا پانی تک میسر نہیں تھا اور اکثر تڑپ تڑپ کر شہید ہو گئے۔ ظلم کی انتہا دیکھیے کہ انگریز فوج نے گاؤں میں بکریوں اور بھینسوں وغیرہ کو بھی فائرنگ کر کے مار دیا اور اطلاعات کے مطابق 400 سے زائد جانور جان سے مار دیے گئے۔ ظلم کی حد یہ کہ حاجی فضل قادر کی لاش ورثا کے حوالے کرنے کی بجائے بنوں جیل میں دفن کر دى گئی۔

خونریزی کے بعد حسب معمول گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا اور جو بھی فوج کے غضب سے زندہ بچ گئے تھے اُن کو کو گرفتار کیا گیا۔ سپیشل مجسٹریٹ کی سربراہی میں ایک جرگہ بنایا گیا اور 80 سے زائد افراد پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور مختلف سزائیں دی گئیں۔ میر داد خان اور ایوب خان کو چودہ، چودہ سال، 4 افراد کو دس سال اور 32 افراد کو ڈیڑھ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ آج بھی سپین تنگی بنوں میں اِس خونریز واقعہ کی یادگار موجود ہے۔

سپین تنگی کی خونریزی کے بعد بنوں اور آس پاس کے علاقے میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور بھی بڑھ گئی اور مقامی لوگوں نے کچھ وقت کے لئے انگریزوں کہ آمد و رفت پر پابندی بھی لگائی تھی۔ مساجد میں انگریزی سامراج مخالف تقریریں بھی ہوتی تھیں لیکن وہ لوگ بھی انگریز استعمار کے ظلم سے نہ بچ سکے اوراکثر گرفتار ہو جاتے۔

سانحہ سپین تنگی پر پر جسٹس نعمت اللہ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا جنہوں نے اپنی سفارشات میں عوام کی بے گناہی کا ذکر کیا مگر ہمیشہ کی طرح فرنگی نے جلیانوالہ باغ  اور نہ ہی اس جيسے واقعات پر معافی مانگى اور نہ ہی تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں کسی قسم کا رد عمل ظاہر کیا۔

24 اگست 2020 کو اس واقعے کے 90 سال مکمل ہونے کے بعد بھی تاریخ نے نہ کسی ریاستی جغرافیے میں ان کی قربانیوں کا ذکر مناسب سمجھا اور نہ ہی کسی جغرافیائی تاریخ کو محفوظ کرنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ چونکہ مطالعہ پاکستان کو اِس تربیت سے وضع کیا گیا ہے کہ وہاں انگریز سامراج کے قبضے اور تاریخی ظلم سے زیادہ توجہ مسلم اور ہندو کی دشمنی کو دی گئی ہے حالانکہ یہ ہندو مسلم دشمنی بھی اُسی انگریز کی پیدا کردہ تھی تاکہ اپنے اقتدار کو طول دیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری تاریخ اور مطالعہ پاکستان میں ایسے واقعات کا کوئی ذکر نہیں ہے جہاں اِس وطن کے لوگوں نے اپنے اصلی دشمن یعنی انگریز کے خلاف مزاحمت کر کے لازوال قربانیاں دیں۔