ریاستی بیانیے کو پناہ دیتی انگریز کی بگھی کھائی میں جا گری

ان میڈیا پرسنز کا بلوچستان کے بارے مطالعہ صفر تھا یا تحریک کی طاقت تھی کہ ان کے بیانیے اور صحافتی اخلاقیات کی مذمت 'پنجاب' نے بھی کی۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں، سیاسی کارکنان نے ریاستی بیانیے کی گھٹیا شکل کے ساتھ نمٹنے میں بلوچ کا ساتھ دیا اور ریاستی بیانیے کو شکست دی۔

ریاستی بیانیے کو پناہ دیتی انگریز کی بگھی کھائی میں جا گری

مذہبی بیانیہ، لسانی بیانیہ، بربریت کو پناہ دیتا بیانیہ؛ جو بھی ہو جب اُسے ریاست اپنا لے تو خوشی خوشی نام و مقام تبدیل ہو جاتے ہیں اور بن جاتا ہے ریاستی بیانیہ۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی، احتجاج، لانگ مارچ، مظاہرے، عوامی رابطہ مہم نئی مظاہر نہیں ہیں لیکن کچھ ایسے واقعات ریاستی مہربانیوں سے رونما ہوئے کہ ان کا ردعمل مظلوم کی موبلائزیشن کو سہارا دیتا چلا گیا۔ مثلاً تُربَت میں چار لوگ مارے گئے، ریاستی غلطی کہہ لیں، انا یا ظلم کی دوام کہ ان میں سے ایک عدالت میں پیش کیا گیا فرد تھا اور اس کی پہچان بالاچ تھی۔ پھر تربت سے تحریک اٹھی، بلوچ زمین و قوم کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی اب اسلام آباد میں پنڈال سجائے بیٹھی ہے۔

یہ پہلا ماورائے عدالت قتل نہیں تھا۔ 2021 سے اب تک 102 افراد اسی طرح جعلی مقابلوں میں شہید کیے جا چکے ہیں۔ کچھ واقعات کا ردعمل بھی آیا ہے۔ کوئٹہ ریڈ زون میں دھرنا، ریلی و مظاہرے بھی ہوئے لیکن بالاچ کے قتل کے بعد جو ہوا وہ سبھی ردعمل کا عروج ہے۔

دھرنا و لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا، ریاست نے اپنے بیانیے کو بچاتے بچاتے ان پر تشدد کیا، یخ بستہ سردی میں واٹر کینن پھینکے گئے اور لاٹھی چارج ہوا۔ تین سو کے قریب مظاہرین و استقبال میں کھڑے طلبہ پابندِ سلاسل کیے گئے۔ یوں ریاست نے ایک اور مہربانی کی اور تحریک کو ایک اور عروج بخشا۔

ہمیں ایک پل ایسا لگا کہ دنیا اچانک اندھے پن سے نکل آئی ہو۔ کسی نے لانگ مارچ کی کوریج کی، کسی نے کرداروں پر قصیدے لکھے، کسی نے شعر لکھا، کسی نے آرٹ بنایا اور کسی نے نغمہ گایا۔

اس کام کو مزید تقویت دینے میں اندرون بلوچستان و بیرونِ بلوچستان لانگ مارچ کو سپورٹ ملی کہ سب کچھ آشکار ہو۔ یہ سب کچھ انوکھا اس لیے بھی نہیں کہ تحریکیں جان لیوا بھی ہوتی ہیں اور متاثر کن بھی۔ تحریک نظرانداز شدہ کرداروں، واقعات کو ایک ایسی رونق بخشتی ہے کہ دنیا حیران ہو جائے۔

تحریک نے متاثر کرداروں کو الگ الگ زاویے دیے کہ بیان ہو جائیں۔ کوئی غیر بلوچ، بلوچ بیٹیوں کی بہادری سے متاثر ہوا، کوئی اخلاقیات، کوئی سیاسی علم و عمل سے۔ اچانک متاثر ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ اچانک ریاستی بیانیے سے چھلانگ لگا کر بلوچ بیانیے میں گُھس کر بلوچ کو دیکھ رہے تھے۔ بلاشبہ اس بیانیے کی پروموشن میں ریاستی ردعمل و میڈیا کا کردارا نمایاں ہے۔

تحریک کی طاقت دیکھیے کہ جب ریاست نے بلوچ کو اس قدر ٹرینڈ ہوتے دیکھا، میڈیا سیلیبرٹی کی سپورٹ دیکھی، عمران خان کے بیانیے کا پرچار کرنے والے 'کنٹینٹ کریئیٹر' کا لگاؤ دیکھا تو معاملے کو پیچ دینے کے لیے بول و جی ٹی وی کا سہارا لیا۔

غریدہ فاروقی وغیرہ احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے الٹرا محبِ وطن بن کر جنگی صورت حال و واقعات کی مذمت کرنے نکل پڑے۔ وہ واقعات جو اس مارچ پر ریاستی ردعمل سے ہو بہو بلوچستان میں ریاستی ایکشن کے نتیجے تھے۔

ان میڈیا پرسنز کا بلوچستان کے بارے مطالعہ صفر تھا یا تحریک کی طاقت تھی کہ ان کے بیانیے اور صحافتی اخلاقیات کی مذمت 'پنجاب' نے بھی کی۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں، سیاسی کارکنان نے ریاستی بیانیے کی گھٹیا شکل کے ساتھ نمٹنے میں بلوچ کا ساتھ دیا اور ریاستی بیانیے کو شکست دی۔

ریاستی بیانیے کو سمجھنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وزن پلڑے میں کتنا ہے بلکہ یہ ضروری ہے کہ یہ طاقت سے بنایا گیا کاؤنٹر بیانیہ ہے جو 70 سالوں سے برسرِ بلوچ استعمال ہو رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ریاستی بیانیے کا گھٹنا ریاستی ردعمل و زمینی حالات کے ذریعے ہوا۔ بلوچستان نے جتنا کچھ دیکھا ہے وہ طاقت سے بنے بیانیے کا ایک فیصد بھی نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ میڈیا، فلم انڈسٹری، اداروں کی مدد سے بنایا گیا بیانیہ چُٹکی بجاتے ہی زمیں بوس ہو گیا۔

اس بیانیے میں رد و بدل وقتی حالات پر منحصر رہا ہے لیکن اس کی پیدائش ریاست کی پیدائش سے پہلے کی ہے۔ انگریز کی بلوچستان میں ولادت سے ہو بہو بیانیہ کبھی عروج، کبھی زوال میں رہا ہے اور اس بیانیے کی ابتدا جنرل فورٹ سنڈیمن کی بلوچستان آمد سے ہوئی۔ جنہوں نے سنڈیمن کی بگھی کھینچی وہ اور ان کی نسل تاحیات انگریز کے پیدا کردہ بیانیے و نوآبادیاتی ریاست کے غلام رہے۔ خیر بخش مری کے دادا (خیر بخش مری اوّل) بگھی کھینچنے کی ریس سے کنارہ کش ہوئے اور آج خیر بخش مری کے جانشین اور نظریاتی وارث بھی بگھی والوں کے بیانیے سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں، بربریت کے زوال کی داستان ہے۔

یوسف بلوچ ایک اردو کالم نگار اور طالب علم ہیں۔ ان کے کالمز نیا دور اردو، سماچار پاکستان اور دی بلوچستان پوسٹ میں شائع ہوتے ہیں۔