Get Alerts

نواز شریف کی گرفتاری: کیا بساط نقشہ نویسوں کے قابو سے باہر ہو رہی ہے؟

نواز شریف کی گرفتاری: کیا بساط نقشہ نویسوں کے قابو سے باہر ہو رہی ہے؟
احتساب عدالت سے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائے جانا کوئی بڑی خبر نہیں کیونکہ رموزِ سیاست کو سمجھنے والے اس امر سے واقف تھے کہ نواز شریف کو سزا ملنا طے ہے۔ البتہ بڑی خبر یہ ہے کہ احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو بری کر دیا۔ فلیگ شپ ریفرنس نواز شریف کے بیٹے حسن نواز کی آف شور کمپنیوں سے متعلق تھا اور نواز شریف پر الزام تھا کہ وہ ان کمپنیوں کے اصل مالک تھے اور ان کے منافع سے حصہ وصول کرنے کے باوحود اس منافع کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ یہ وہی کیس ہے جس میں نواز شریف کو کیپیٹل ایف زیڈ ای (FZE) سے تنخواہ لینے اور اسے چھپانے کا مرتکب قرار دیکر سپریم کورٹ نے وزارت عظمیٰ سے نااہل کیا تھا۔

پاکستان میں منتخب وزراءِ اعظم اور مقبول سیاسی رہنماؤں کو جیل میں بھیجے جانے کی ریت نئی نہیں ہے

اب جبکہ احتساب عدالت نے اس کیس میں نواز شریف کو بری کر دیا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلیت کی اب قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا اعلیٰ عدلیہ اپنے فیصلے جس کی رو سے منتخب وزیراعظم کو بری کیا گیا پر معافی مانگے گی؟ یا اس فیصلے کی تصحیح کرے گی؟ جہاں تک نواز شریف کے جیل بھیجے جانے کا تعلق ہے تو شاید یہ اقدام وقتی طور پر تحریک انصاف کی حکومت اور پس پشت قوتوں کے اوپر بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ اور بحران کو وقتی طور پر کم تو کر دے گا لیکن اس کے اثرات مستقبل قریب میں سیاست کا رخ تبدیل کر ڈالیں گے۔ پاکستان میں منتخب وزراءِ اعظم اور مقبول سیاسی رہنماؤں کو جیل میں بھیجے جانے کی ریت نئی نہیں ہے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ اگلے ایک سال میں یہ ریت ختم ہونے والی ہے۔



’وہ‘ قوتیں بھی ریال اور درہم محض قلیل مدت تک فراہم کر سکتی ہیں

اس وقت سیاسی بساط بچھانے اور اسے اپنی منشا سے چلانے والی قوتیں بھی اضطراب کا شکار دکھائی دیتی ہیں۔ جو سیاسی ڈیزائن سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے نیا پاکستان کے نقشہ نویس حاصل کرنا چاہتے تھے وہ حسب منشا حاصل نہیں ہو پایا ہے۔ جن عالمی قوتوں کی ایما پر ہمارے نیا پاکستان کے نقشہ نویسوں نے یہ بساط ترتیب دی تھی وہ قوتیں بھی ریال اور درہم محض قلیل مدت تک فراہم کر سکتی ہیں اور طویل المدتی بنیادوں پر معاشی میدان میں وطن عزیز کو خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔

اگلے سال اہم محکموں میں بلند ترین منصبوں پر بیٹھے کئی اشخاص ریٹائر ہو جائیں گے

مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت کے پاس نہ تو معاشی و سیاسی بحران حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور نہ ہی ان کے پاس عوام کے مسائل کی کنجی موجود ہے۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے کیونکہ جن قوتوں نے یہ کھیل رچایا ہے وہ بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی استحکام کے باعث خوفزدہ دکھائی دیتی ییں۔ ان قوتوں کے پاس وقت بھی بہت کم ہے کیونکہ اگلے سال اہم محکموں میں بلند ترین منصبوں پر بیٹھے کئی اشخاص ریٹائر ہو جائیں گے۔ ایسے میں موجودہ سیاسی سٹیٹس کو کو برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہو جائے گا اور بڑھتا ہوا اقتصادی بحران اس کھیل کو رچانے والوں کو بیک فٹ پر جانے پر مجبور کر دے گا۔

مریم نواز کی خاموشی ٹوٹنے کے بعد اس جماعت کے کارکن پھر سے متحرک اور پرامید ہو چکے ہیں

دوسری جانب نواز شریف کو جیل بھیجے جانے کا فیصلہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی مردہ سیاست میں جان ڈالنے کا باعث بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے ووٹ بنک کیلئے یہ عدالتی فیصلہ بھی انتقام پر مبنی ہے اور مریم نواز کی خاموشی ٹوٹنے کے بعد اس جماعت کے کارکن پھر سے متحرک اور پرامید ہو چکے ہیں۔ اگر مریم نواز نے پھر سے عوامی اجتماعات اور جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا تو پہلے سے کمزور تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کیلئے بڑھتا ہوا سیاسی دباؤ ناقابلِ برداشت ہو جائے گا اور اسے ہر صورت عوام سے تازہ مینڈیٹ لینے کا فیصلہ کرنا پڑے گا۔ سیاسی بساط اور نئے پاکستان کے نقشہ نویسوں کیلئے یہ بات قابلِ قبول ہے کہ کسی بھی صورت انتخابات کروا کر یا تو عمران خان کو دو تہائی اکثریت دلوا دی جائے یا پھر تمام سیاسی کھلاڑیوں میں کیک کا چھوٹا حصہ تقسیم کر کے ایک قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا حائے جس کے ذریعے اٹھارہویں ترمیم کا خاتمہ اور صدارتی نظام کا نفاذ ممکن ہو سکے۔



شہباز شریف دراصل وہ وہی گیم کھیل رہے ہیں جو نواز شریف نے انہیں بتائی ہے

لیکن قباحت یہ ہے کہ ہر مرتبہ پولنگ سٹیشنوں پر اتنی بڑی تعداد میں سپاہی نہیں تعینات کیے جا سکتے اور نہ ہی تحریک انصاف کو ان حالات میں دو تہائی اکثریت دلوائی جا سکتی ہے۔ قومی حکومت کے قیام کا منصوبہ بھی تکمیل ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ شہباز شریف بھلے ہی پس پشت قوتوں سے صلح کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن دراصل وہ وہی گیم کھیل رہے ہیں جو نواز شریف نے انہیں بتائی ہے۔ اس لئے قومی حکومت کا قیام بھی ناممکن نظر آتا ہے۔ پس پشت قوتوں کے پاس وقت بیحد کم بچا ہے جبکہ مریم نواز کی صورت میں نواز شریف کے پاس بے پناہ وقت موجود ہے۔

نواز شریف تحریک انصاف کی حکومت کو وقت دینا چاہتے ہیں

یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے اپنی گرفتاری کے خلاف اپنی جماعت کے رہنماؤں اور مریم نواز کو کسی بھی قسم کی احتجاجی تحریک چلانے سے روک دیا ہے۔ نواز شریف تحریک انصاف کی حکومت کو وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ یہ حکومت خود اپنی ناکامیوں اور نالائقیوں کے وزن تلے دب کر سیاسی موت کا شکار ہو جائے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے بچاؤ کی واحد صورت معجزانہ طور پر معیشت کو دوبارہ سے پیروں پر کھڑا کرنے کی صورت میں ہے لیکن عرب ریاستوں سے قرضے لینے کے علاوہ ان کے پاس معیشت کو درست کرنے کا کوئی جامع حل موحود نہیں ہے۔ ایسی صورتحال میں خود نیا پاکستان کے اصل نقشہ نویس بھی تحریک انصاف کی حکومت کو زیادہ دیر برداشت نہیں کریں گے۔



تحریک انصاف اور ان کے سرپرستوں کو بتدریج پسپائی اختیار کرنا پڑے گی

ترکی اور چین کی خاموش حمایت واضح طور پر مسلم لیگ نواز کے پلڑے میں ہے اور مستقبل قریب میں یہ خاموش حمایت بھی نادیدہ قوتوں پر دباؤ بڑھانے کا مؤجب بنے گی۔ اس لڑائی کو جتنا طول ملے گا نواز شریف اور مسلم لیگ نواز کو اس کا اتنا ہی فائدہ ہو گا اور تحریک انصاف اور ان کے سرپرستوں کو بتدریج پسپائی اختیار کرنا پڑے گی۔ لیکن اس کیلئے شریف خاندان اور مسلم لیگ نواز کو اس کٹھن راستے پر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ اس وقت تک شریف خاندان اور مسلم لیگ نواز نے اس راستے پر ثابت قدم رہنے کا ثبوت دیا ہے۔ عدالتی ہتھوڑوں سے بار بار نواز شریف کو شکار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نیا پاکستان کے نقشہ نویسوں کو اس بساط پر اپنی کامیابی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ سیاسی بساط اس وقت دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں تحریک انصاف کے قدموں تلے سے قالین کھنچتا جا رہا ہے اور اس کی حکومت کسی بھی لمحے پھسل کر گر سکتی ہے۔

"گیم دراصل کچھ اور ہے"

یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کو سزا سنوانے کے بعد بھی تحریک انصاف کی حکومت اضطراب کا شکار دکھائی دیتی ہے اور شیخ رشید سے پریس کانفرنسیں کروا کر نادیدہ قوتوں کو پیغام دے رہی ہے کہ اسے معلوم ہے کہ "گیم دراصل کچھ اور ہے"۔ نواز شریف کو ایک انتہائی کمزور مقدمے میں سزا دیکر نیا پاکستان کے نقشہ نویس اور تحریک انصاف اس وقت اگر اس بساط کا کنٹرول ہاتھوں میں نہ لے پائے تو آٹھ سے نو ماہ کے عرصے میں بساط ان معماروں اور تحریک انصاف کے ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ اس وقت محسوس یوں ہوتا ہے کہ اس کھیل کے اصل معماروں کے ہاتھوں سے سیاسی بساط کو قابو میں رکھنے کی قوت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔

کالم نگار

مصنّف ابلاغ کے شعبہ سے منسلک ہیں؛ ریڈیو، اخبارات، ٹیلی وژن، اور این جی اوز کے ساتھ وابستہ بھی رہے ہیں۔ میڈیا اور سیاست کے پالیسی ساز تھنک ٹینکس سے بھی وابستہ رہے ہیں اور باقاعدگی سے اردو اور انگریزی ویب سائٹس، جریدوں اور اخبارات کیلئے بلاگز اور کالمز لکھتے ہیں۔