پاکستان اور بھارت میں گھریلو تشدد: ’55 فیصد خواتین مردوں کی طرف سے تشدد کی حامی‘

پاکستان اور بھارت میں گھریلو تشدد: ’55 فیصد خواتین مردوں کی طرف سے تشدد کی حامی‘
غیرت کے نام پر قتل اور جنسی تشدد کی طرح، گھریلو اور ازدواجی تشدد بھی مرد اور خواتین کے باہم رشتوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا تعلق مرد و عورت کے درمیان جنسی کشش سے زیادہ ان کے نفسیاتی اور جذباتی روئیوں سے ہوتا ہے۔ ازدواجی تشدد ایک ایسا جرم ہے جو بہت حد تک ایسے حالات میں رونما ہوتا ہے جب کسی لڑکی یا اس کے اہل خانہ شادی کے رشتے کو ٹھکراتے ہیں، یا کوئی شوہر دوسری یا تیسری شادی کے لئے پیش قدمی کرتا ہے، یا پھر کوئی روٹھی ہوئی بیوی اپنے شوہرکی متعدد کوششوں کے باوجود اس کے گھر واپس جانے سے انکار کرتی ہے۔ ازدواجی تشدد کے برعکس، گھریلو تشدد شادی شدہ جوڑوں یا ایک ہی خاندان میں رہنے والوں کے درمیان ہوتا ہے اور اس کا زیادہ تر شکار عورتیں یا لڑکیاں ہوتی ہیں۔

یہ دونوں جرائم ہندوستان اور پاکستان میں بہت عام ہیں لیکن ان جرائم کے کوائف کی موجودگی یا تو ناپید ہے یا کسی ایسی شکل میں ریکارڈ کی گئی ہے جو ان جرائم کی نوعیت کے مطابق نہیں۔ پاکستان کے معاملے میں، ان جرائم کے خلاف کوئی اعداد و شمار پنجاب اور سندھ پولیس کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہیں۔ جرائم سے متعلق بھارتی ویب سائٹ میں شوہر یا اس کے رشتہ داروں کے ہاتھوں ظلم کا شکارہونے والی خواتین کی تعداد 110،378 دکھائی گئی ہےجو سال 2016 کے دوران رپورٹ ہوئے تھے۔ جرم کی یہ شناخت بہت مبہم ہے اور متعصب ہے۔ مبہم اس لحاظ سے کہ اس رپورٹ میں متاثرین کی تعداد تو فراہم کی گئی ہے لیکن اس بات کی شناخت نہیں کی گئی کہ یہ تعداد ہلاک ہونے والوں کی ہے یا زخمیوں کی۔ اس سے یہ تصور ابھرتا ہے کہ تمام متاثرین اس جرم سے ہلاک نہیں بلکہ محض زخمی ہوئے تھے۔ ان اعداد و شمار میں تعصب کی جھلک اس لئے دکھائی دیتی ہے کہ ان میں پہلے سے یہ طے کر لیا گیا ہے کہ تمام گھریلو نوعیت کے تشدد شوہر یا اس کے رشتے دارکرتے ہیں اور عورتیں اس قسم کا کبھی کوئی جرم کرتی ہی نہیں ہیں۔ یہ سچ ہے کہ گھریلو تشدد کے بیشتر اقدامات شوہر یا اس کے رشتہ دار ہی کرتے ہیں لیکن ہر مرتبہ ایسا نہیں ہوتا۔



13 نومبر 2018 کو ایک شخص نے اپنی تین بیٹیوں کو ہتھوڑے مار کر ہلاک کرنے کے بعد انہیں آگ لگا دی تھی۔ یہ واقعہ بھارت کے ضلع للت پور کے ایک گاؤں میں پیش آیا تھا کیونکہ وہ شخص اپنی بیوی کے مسلسل اپنے والدین کے گھر پر رہنے سے تنک آ گیا تھا۔ ایک اور واقعہ جو 23 اگست 2019 کو ممبئی کے نالسپورا میں پیش آیا اس میں ایک 36 سالہ شخص، سنیل کدام، کو اس کی بیوی نے چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ صبح 5 بجے ان دونوں کی آپس میں لڑائی ہوئی تھی۔ اس کے بعد سنیل سونے کے لئے چلا گیا تھا۔ جب کہ اس کی بیوی پانی پینے کے بہانے کچن میں چلی گئی اور کچھ دیر بعد وہ چاقو لے کر واپس اپنے بیڈ روم میں آئی اور اس نے سوتے ہوئے سنیل پر 11 بار چاقو سے وار کیے اور اس کا گلا کاٹ دیا۔ اس کی بیوی نے اس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ اس کے کسی اور شخص سے ناجائز تعلقات تھے اور سنیل سے اپنی جان چھڑانا چاہتی تھی۔ ان دونوں واقعات میں، قصوروار ماں اور باپ تھے حالانکہ ان میں سے ایک واقعہ کا محرک شوہر سے بیزاری تھا اور دوسرے معاملے میں بیوی کے ساتھ جھگڑا تھا جس نے باپ کو اپنی ہی بیٹیوں کو مار ڈالنے پر اکسایا تھا۔

پاکستان میں بھی گھریلو تشدد کے کچھ واقعات ایسے پیش آئے ہیں جہاں مجرمان شوہر یا اس کے رشتہ نہیں تھے۔ ضلع چکوال میں کلر کہار کے علاقے میں گھریلو جھگڑوں پر طنز کرنے پر دو کالج میں پڑھنے والی بہنوں نے اپنے باپ کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ چیچہ وطنی کے محلہ احمد نگر میں ایک شخص نے مبینہ طور پر اپنے بہن بھائیوں کا گلا کاٹ دیا تھا اور دو افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ جب کہ لودھراں میں، بیوی کے رشتہ داروں نے پہلی بیوی کی خواہش کے خلاف دوسری بار شادی کرنے پر تیزاب کے حملے میں شوہر کو شدید زخمی کر دیا۔ گلناز نے مبینہ طور پر گھر کی مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اپنے شوہر اجمل، بیٹوں فہد و عبد اللہ اور بیٹیوں عائشہ وعاصمہ کو ریاض ٹاؤن کی رہائش گاہ پرکلہاڑا مار کر قتل کر دیا تھا۔

غیرت کے نام پر قتل اور جنسی تشدد کے برعکس، گھریلو اور ازدواجی تشدد کا جرم مرد اور خواتین کے باہمی رشتوں اور ان سے جنم لینے والے روئیوں سے متعلق ہوتا ہے۔



2018 میں پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والوں کے بعد سب سے زیادہ جو ہلاکتیں ہوئی تھیں، ان کی وجہ گھریلو اور ازدواجی تشدد تھے جن کی وجہ سے 115 افراد ہلاک اور 54 زخمی ہوئے تھے۔ حسب معمول صوبہ پنجاب ہی وہ علاقہ تھا جہاں سب سے زیادہ افراد ان جرائم کا شکار ہوئے تھے۔ ان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 65 تھی اور 47 زخمی ہوئے تھے۔ اس کے بعد خیبر پختونخوا (30 اور 2)، سندھ (12 اور 2)، اور اسلام آباد (5 اور 2) افراد ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ فاٹا اور بلوچستان کے علاقے جو دہشت گردی سے بہت زیادہ متاثر ہیں وہاں اس تشدد سے متاثرہونے والوں کی تعداد صرف 3 اور 2 ہلاکتیں تھیں۔ ان جرائم کا شکار ہونے والوں میں 75 فیصد خواتین تھیں جن میں بالغ، نابالغ، اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے۔ باقی مرد تھے جن میں نوجوان اور چھوٹی عمر کے لڑکے بھی شامل تھے۔

گھریلو اور ازدواجی تشدد کی بڑی وجوہات میں شادی بیاہ کے تنازعات، غربت کے مسائل، متعدد بیویاں، اولاد نہ ہونے اور ماں باپ اور سسرالیوں کے ساتھ بد تمیزی جیسی وجوہات شامل تھیں۔ ان حالات سے بیزار ہو کر لوگ غم و غصے کی حالت میں ہر اس خوفناک طریقے کا سہارا لینے کو تیار ہو جاتے ہیں جو ان کی دسترس میں آ جائے۔ تقریباً 34 افراد پر تیزاب سے حملہ کیا گیا جن میں اکثریت خواتین یا بچوں کی تھی اور مردوں کی تعداد محض آٹے میں نمک کے برابر تھی۔

انہی جرائم کی وجہ سے لوگوں کو نذر آتش کرنے کے 9 واقعات ہوئے جن میں تین افراد ہلاک اور چھ شدید زخمی ہوئے تھے۔ متاثرین میں سات خواتین اور دو مرد شامل تھے۔ ایک واقعہ کراچی میں بلال کالونی میں پیش آیا جہاں ایک نئی نویلی دوسری بیوی اور اس کے دو بہنوئیوں پراس بات کا شبہ تھا کہ انہوں نے مل کر شوہر کو زندہ جلا دیا تھا۔

ایک اور واقعہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آیا جہاں ایک نئی نویلی دوسری بیوی کو مبینہ طور پر مٹی کا تیل ڈال کر اس کے شوہر اور اس کے اہل خانہ نے غوری ٹاؤن میں زندہ جلا دیا تھا۔

تیسرا واقعہ ضلع لاہور کا تھا جہاں ایک شوہر نے گھر والوں کے تعاون سے مبینہ طور پر اپنی اہلیہ کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی۔

کچھ جرائم ایسے بھی تھے جو نہایت معمولی نوعیت کے تھے لیکن ان کے نتائج نہایت مہلک رہے تھے۔ مثلاً بیوی کا دروازہ کھولنے میں دیر کر دینا، اولاد نہ ہونے کی وجہ، اور بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا شامل تھے۔

ہندوستان میں گھریلو اور ازدواجی تشدد بہت عام ہے اور ایکشن ایڈ، انڈیا کے مطابق ملک میں 70 فیصد خواتین کو کسی نہ کسی وقت گھریلو تشدد کا نشانہ بننا ہی پڑتا ہے۔ گھریلو تشدد کے چار واقعات جو 2018 میں ہندوستانی اخبارات کی شہہ سرخیاں بنے ان سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں ایک بیوی، پانچ بچوں کوہلاک کرنے والوں میں دو باپ، ایک ماں اور ایک شوہر شامل تھے۔ مدھیہ پردیش میں ایک عورت اس لئے موت کا شکار ہو گئی کیونکہ اس کے شوہر نے اس کی آنکھیں، ناک اورمنہ ٹیپ سے چپکا دیے تھے۔ جبکہ ممبئی میں ایک ماں نے نہ صرف خود چوہے مار دوا پی لی تھی بلکہ اپنے بچوں کو بھی یہ دوا پلادی تھی کیونکہ اس کا اپنے شوہر سے پیسے کے معاملات پرجھگڑا ہوا تھا۔ ضلع بہار میں کھانا پکانے میں کافی دیر ہو جانے کے باعث ایک شخص نے اپنی 4 سالہ بیٹی کو ہلاک کر دیا تھا۔ جب کہ اترپردیش میں ایک شخص نے اپنی 3 نابالغ بچیوں کو ہتھوڑے سے مار کر ہلاک کرنے کے بعد انہیں نذر آتش کر دیا تھا کیونکہ وہ اپنی بیوی کا اس کے والدین کے گھر پررہنا پسند نہیں کرتا تھا۔



سماجی جرائم کے واقعات میں زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی جڑیں مقامی ثقافت اور روایت میں پائی جاتی ہیں جو اکثر لوگوں کو ایسے جرائم کرنے کی اجازت دیتی ہیں جو درحقیقت غیرقانونی ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق وہاں درمیانی عمر کی خواتین میں سے 54.8٪ خواتین گھریلو تشدد کی حامی پائی گئی تھیں جب کہ نوعمر لڑکیاں شوہروں کے تشدد سے اتفاق کرتی تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دیہی یا شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کی رائے میں کوئی خاص فرق نہیں پایا گیا تھا۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا اسمبلی میں 2014 سے خواتین کے خلاف ہونے والے گھریلو تشدد کے متعلق ایک قانون سازی کا بل ایک عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ اس کی ایک وجہ مذہبی جماعتوں کا اس بل کی متعدد شقوں پر اختلاف رائے ہے جنہیں وہ غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک مروجہ معاشرتی اور ثقافتی اقدار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، پاک بھارت خواتین کی تکلیفیں بڑھتی رہیں گی اور ان جرائم کی کوئی خاص روک تھام نہیں ہو سکے گی۔