Get Alerts

عمران خان کی سدھو کو وزیر بنانے کی مبینہ سفارش، بھارت میں نیا تنازع کھڑا ہو گیا

عمران خان کی سدھو کو وزیر بنانے کی مبینہ سفارش، بھارت میں نیا تنازع کھڑا ہو گیا
انڈین پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے دعوی کیا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے نوجوت سنگھ سدھو کو کابینہ میں وزیر بنانے کی سفارش کی تھی۔

ایک ویڈیو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں پیغام بھیجا گیا کہ سدھو کو اپنی حکومت کا حصہ بنا سکتے ہیں تو بنا لیں اور اگر وہ کام نہ کر سکیں تو نکال دینا۔ ان پر جب پوچھا گیا کہ یہ پیغام انھیں کس نے دیا تھا تو اس کا جواب دیتے ہوئے امریندر سنگھ نے کہا کہ وہ پاکستان کے بارے میں ہی بات کر رہے ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان سے پیغام آیا کہ وزیراعظم عمران خان نے درخواست کی ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو کو اپنی کابینہ کا حصہ بنا لیں تو ہم آپ کے شکرگزار ہوں گے کیونکہ وہ عمران خان کے پرانے دوست ہیں۔

اس پر سوشل میڈیا صارفین نے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ امریندر سنگھ اس معاملے میں سفید جھوٹ بول رہے ہیں۔ عمران خان نے اگست 2018ء میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا جبکہ سدھو نے مارچ 2017ء میں حلف اٹھا لیا تھا۔

https://twitter.com/bole_bharat/status/1485599322423005187?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1485599322423005187%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_c10&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.urdunews.com%2Fnode%2F638546

امریندر سنگھ کا یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کانگریس کے ریاستی سربراہ اور وہ خود حکمران جماعت بے جے پی کے اتحادی ہیں۔

دو مرتبہ ریاست کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے امریندر سنگھ، راجیو گاندھی سے دوستی کے باعث کانگریس کا حصہ بنے اور 1980ء میں پہلی مرتبہ لوک سبھا کے رکن بنے تھے۔ البتہ سکھوں کے خلاف 1984ء میں ہونے والے آپریشن بلیو سٹار کے خلاف احتجاجاً وہ مستعفی ہو گئے تھے۔

بعد میں اکالی دل کا حصہ بن کر وہ رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور 1992 تک اسی سیاسی جماعت کا حصہ رہے۔ اس موقع پر انہوں نے پارٹی میں اپنا الگ گروپ بنا کر علیحدگی اختیار کی تو 1998 میں اس گروہ کو کانگریس میں ضم کر دیا تھا۔

2017 میں کانگریس نے ان کی قیادت میں ریاستی اسمبلی میں حکومت قائم کی تو وہ دوسری مرتبہ وزیراعلی بنے۔ متعدد سوشل میڈیا صارفین نے سابق وزیراعلی کی حالیہ گفتگو کو محض سیاسی مخالفت قرار دیتے ہوئے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔