افراد احمق ہو سکتے ہیں، معاشرہ بھی احمق ہو سکتا ہے مگر ایک ریاست کبھی بھی احمق نہیں ہو سکتی۔ یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کو اجازت نہیں ہے کہ وہ احمق ہو۔ ایک عظیم مسلمان فلسفی نے کہا تھا کہ احمق وہ ہوتا ہے جو بار بار اپنے فیصلے تبدیل کرتا ہے، احمق اچھے موقعے کا بڑی بے صبری سے انتظار کرتا ہے مگر جب وہ موقع آتا ہے تو وہ اس کو ضائع کر دیتا ہے۔ پاکستان کی ریاست کے ساتھ بھی اس کے قیام سے یہی مسئلہ چلتا آ رہا ہے۔ پاکستان کی ریاست بار بار اپنے فیصلوں کو تبدیل کرتی ہے اور جب تبدیلی اور اپنے حالات کو بدلنے کا کوئی موقع ہاتھ آتا ہے تو اسے بھی گنوا بیٹھتی ہے۔ اس رویے کی بے شمار مثالیں پاکستان کی تاریخ میں موجود ہیں۔
موجودہ دور میں ایک دفعہ پھر سے ایک ایسا موقع پاکستان کے ہاتھ آیا جس کو گنوانا نہیں چاہئیے۔ یہ موقع ہے پچھلی غلطیوں کو سدھارنے کا اور ریاست کو ایک نئی سمت میں لے کر جانے کا۔ مارچ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی، پاکستان کی پارلیمانی اور سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی وزرائے اعظموں کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکیں آئیں مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکی۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کو ہمیشہ منتخب حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریکیں لائی جاتی ہیں، حکومت پر دباؤ بڑھا کے اور اپنے مطالبے منوانے کے بعد تحریکیں ناکام کروا دی جاتی ہیں۔ ان سب ہتکھنڈوں میں پاکستان کے سیاست دان ہمیشہ استعمال ہوئے ہیں۔
تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد پاکستان کی سیاست میں ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ تحریک انصاف اور جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے مابین ذاتی جنگ شروع ہو گئی۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے باجوہ صاحب پر شدید الزامات لگائے اور ان کو تحریک عدم اعتماد اور اس کی کامیابی کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا۔ جب عمران خان نے مسلسل ان کو تنقید کا نشانہ بنایا تو انہوں نے بھی ان الزامات کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ باجوہ صاحب کا جواب بھی الزامات کی صورت میں تھا۔ ایک دوسرے کو گندا کرنے اور بے نقاب کرنے کے لئے باجوہ صاحب اور عمران خان میں ٹھن گئی۔
عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر سینیئر رہنماؤں کی جنرل (ر) باجوہ سے رات کی تاریکی میں اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے ایک سیکٹر آفس میں ملاقات ہوئی۔ باجوہ صاحب کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم اور دیگر افسران بھی اس میں موجود تھے۔ اس ملاقات کا مقصد فریقین کے مابین تلخی کو کم کرنا اور الزامات کے سلسلے کو روکنا تھا۔ عمران خان اپنی حکومت کے چھن جانے پر شدید رنجیدہ تھے۔ ان کو اس سے بھی زیادہ غصہ اس بات پر تھا کہ باجوہ صاحب نے ان کے خلاف (ن) لیگ کی حمایت کی اور ان کو حکومت میں لے کر آئے۔ عمران خان نے باجوہ صاحب کو اس ملاقات میں رشوت کی پیشکش کر دی کیونکہ عمران خان کو لگتا تھا کہ باجوہ صاحب جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی مقصد کے تحت کر رہے ہیں۔ عمران خان نے ان سے کہا کہ میں آپ کو تاحیات آرمی چیف بنانے کی حامی بھرتا ہوں، آپ مجھے دوبارہ اقتدار میں لے آئیں اور پی ڈی ایم کی حمایت چھوڑ دیں۔ باجوہ صاحب کو عمران خان کی بے تکلفی پسند نہ آئی اور انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے ماتحت افسران کے سامنے ان کی بے عزتی ہوئی ہے۔
باجوہ صاحب کا عمران خان پر غصہ جائز تھا۔ جو باتیں انتہائی خلوت میں کی جاتی ہیں عمران خان کھلے عام کرتے جا رہے تھے۔ ویسے بھی جب آپ کو محسوس ہو کہ آپ بے نقاب ہو رہے ہیں تو غصہ ایک لازم ردعمل کے طور پر آ جاتا ہے۔ باجوہ صاحب نے ردعمل کے طور پر عمران خان کو پلے بوائے کہا اور آڈیوز اور ویڈیوز کے ذریعے سے بے نقاب کرنے کی دھمکی دے دی۔
عمران خان نے اس ملاقات کے بعد بھی باجوہ صاحب پر الزامات کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے باجوہ صاحب نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو کہا کہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے سے قوم کو بتائیں کہ صرف میں ہی برا نہیں ہوں، عمران خان بھی برائی میں میرے برابر کا ساتھی ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس ریاستی بے بسی کی علامت تھی۔ اس غیر معمولی پریس کانفرنس میں پاکستان کے دفاع کی ضامن ایجنسی کے سربراہ کو ملک کے دفاع کے بجائے آرمی چیف کے ذاتی ایڈونچرز اور مس ایڈونچرز کا دفاع کرنا پڑ رہا تھا۔
باجوہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے باقاعدہ اپنے قریبی لوگوں اور کچھ صحافیوں کے ذریعے سے عمران خان کے کچھ رازوں سے پردہ اٹھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما ملک احمد خان باجوہ صاحب کے قریبی آدمی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کچھ روز قبل انکشاف کیا کہ باجوہ صاحب نے 2018 میں عمران خان کو سپریم کورٹ سے بنی گالہ والے کیس میں این آر او لے کر دیا تھا جس کی وجہ سے عمران خان صادق اور امین قرار پائے اور الیکش لڑنے کے قابل ہوئے۔ دی نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی انصار عباسی نے بھی لکھا کہ ان کی باجوہ صاحب کے قریبی ذرائع سے بات ہوئی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) باجوہ نے فیض حمید کے ذریعے سے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو کہلوا کر عمران خان کو ریلیف لے کر دیا تھا۔
اس کے بعد کالم نگار جاوید چودھری نے باجوہ صاحب کے ساتھ ایک ملاقات کی اور انہوں نے اپنے کالم میں اس ملاقات کی تفصیلات بتانے کے ساتھ ساتھ میڈیا میں پہلے سے چلنے والی خبروں کی تصدیق کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو جب مسلم لیگی رہنما حنیف عباسی کی طرف سے دائر کردہ بنی گالہ کے گھر والے کیس میں بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو وہ جہانگیر ترین کو ساتھ لے کر باجوہ صاحب سے ملنے گئے۔ باجوہ صاحب سے عمران خان نے اس کیس میں مدد کی درخواست کی۔ باجوہ صاحب نے اس سلسلے میں اس وقت کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید کو کہا کہ اس معاملے کو دیکھیں۔ فیض حمید نے اپنے چیف کا حکم مانتے ہوئے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کو کہا کہ عمران خان کو صادق اور امین ثابت کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
جاوید چودھری نے یہ بھی لکھا کہ ثاقب نثار عمران خان کو ریلیف دینے پر رضامند ہو گئے مگر انہوں نے بیلنسنگ ایکٹ کے تحت جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے دیا۔ سلیم صافی بھی جہانگیر ترین کو بیلنسنگ ایکٹ کے تحت قربان کرنے کے واقعے کی تصدیق کر چکے ہیں۔ سلیم صافی یہ بھی انکشاف کر چکے ہیں کہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور پرویز خٹک سمیت کچھ دیگر تحریک انصاف کے سینیئر رہنماؤں کو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے زور زبردستی کر کے تحریک انصاف میں شامل کروایا تھا تاکہ 'پروجیکٹ عمران' کو حتمی شکل دی جا سکے۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی کہ کس طرح سے باجوہ اینڈ کپمنی 2018 میں پاکستان کے آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتی رہی اور اپنی مرضی کے سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف رہی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد باجوہ صاحب نے پرانے رازوں سے پردہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جس سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ انہوں نے اپنے غیر آئینی اور ماورائے اختیار رویے سے کیا کیا کھیل کھیلے ہیں۔ حیرانگی کی بات تو یہ ہے کہ ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ان کے اس طرح کے انکشافات سے ان کے اوپر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کو پاکستان کی پارلیمنٹ اور عدالتوں کی معذوری اور نالائقی پر پورا یقین ہے۔
پاکستان کے پاس اس وقت تاریخی موقع ہے۔ پچھلے پانچ سالوں کے سیاسی اور غیر سیاسی کرداروں کے اقدامات کی چھان بین کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن بنایا جائے جس میں ہر اس کردار کو شامل کیا جائے جو اس بارے میں کچھ بھی جانتا ہے۔ اس کمیشن میں عمران خان اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو اولین کرداروں کے طور پر رکھا جائے۔ یہ دو افراد پاکستان کے آئین، سیاست، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے معاملات کے تازہ مرکزی کردار ہیں۔ یہ دو افراد ایک دوسرے کے بارے میں اور ایک دوسرے کے جرائم اور گٹھ جوڑ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ ان دو کے علاوہ کمیشن میں فیض حمید، ثاقب نثار اور ظہیر الاسلام عباسی کو بھی شامل کیا جانا چاہئیے۔
کیا ابھی بھی ملکِ بدنصیب میں وہ وقت نہیں آیا کہ آئین اور قانون توڑنے والے افراد کے خلاف علی الاعلان تادیبی کارروائی کی جائے؟ کیا ریاست پاکستان آج بھی چند افراد اور طبقہ اشرافیہ کے ہاتھوں اتنی ہی بے بس ہے جتنی پہلے دن تھی؟ کیا ریاست کی معذوری اور لاچاری میں پچھلے 75 سالوں میں کوئی کمی آئی ہے؟ کیا ریاست آج بھی اپنی حماقتوں پر مطمئن ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر ریاست پاکستان ایک بہت بڑے حماقتستان میں بدل چکی ہے۔
ٹیگز: 2018 کے عام انتخابات, آر ٹی ایس, پاکستان تحریک انصاف, پاکستانی اسٹیبلشمنٹ, پی ٹی آئی, جاوید چودھری, جنرل (ر) ظہیر الاسلام, چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار, حامد میر, سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ, سلیم صافی, سیاست میں فوج کا کردار, عمران خان, لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید, ملٹری اسٹیبلشمنٹ, نیوٹرل
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔