جنرل (ر) راحیل شریف نے ستمبر 2014 میں نواز شریف حکومت کے خلاف جنرل (ر) ظہیر الاسلام کی بغاوت کی کوشش ناکام بنائی تھی

سابق آرمی چیف جنرل (ر) آصف نواز کے بھائی شجاع نواز کی کتاب سے متعلق اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ کتاب میں امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ظہیر الاسلام ستمبر 2014 میں بغاوت کے لئے پر تول رہے تھے لیکن اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے یہ کوشش ناکام بنا دی تھی۔

شجاع نواز نے اپنی کتاب ’’بیٹل فار پاکستان، بیٹریو ایس فرینڈ شپ اینڈ ٹف نیبر ہڈ‘‘ میں رچرڈ اولسن کے حوالے سے کتاب کے صفحہ 185 پر لکھا ہے کہ 2014 میں افواہیں گرم تھیں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنے کے انعقاد میں مدد کر رہے تھے۔



اسی بارے میں شجاع نواز کتاب کے صفحہ 262 میں پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر رچرڈ اولسن سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی سفیر نے انھیں بتایا کہ ستمبر 2014 میں ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان میں فوجی بغاوت کا منصوبہ بنا رہے ہیں مگر اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اس منصوبے کو پنپنے نہیں دیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جنرل ظہیر کور کمانڈرز سے بھی رابطے رکھے ہوئے تھے اور اگر انھیں راحیل شریف کی حمایت ہوتی تو حکومت کا تختہ الٹ چکا ہوتا۔



یاد رہے کہ ستمبر 2014 کا وہی مہینہ ہے جب اسلام آباد میں عمران خان کا دھرنا چل رہا تھا۔

کتاب میں مزید لکھا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی بھی امریکہ کی طرف سے نگرانی جاری رہی۔

شجاع نواز کی کتاب ملک کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں کافی زیر بحث ہے اور اس کی بنیادی وجہ نہ صرف کتاب میں موجود مواد ہے بلکہ شجاع نواز کا اس حوالے سے فیس بک پر جاری کیا گیا پیغام بھی ہے۔ 24 دسمبر کو شجاع نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ وہ تمام افراد جو میری کتاب کی رونمائی کی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں منعقد ہونے والی تقاریب کی منسوخی کی وجہ پوچھ رہے ہیں، میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ (مبینہ طور پر) پاکستان آرمی نے ان تقاریب کے منتظمین کے ذریعے انھیں منسوخ کروایا ہے۔

انھوں نے مزید لکھا کہ پہلے ان سے کہا گیا کہ وہ خود یہ تقاریب ملتوی کر دیں لیکن جب انھوں نے انکار کیا، تو یہ فیصلہ ان کی مرضی کے خلاف لیا گیا۔