پاکستان کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں بیرونی قووتوں کا کبھی ہاتھ ہوتا ہے اور کبھی صرف اس امر کا تاثر۔ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے سی آئی اے کے تانے بانے نکلے تو ضیا الحق کے طیارہ حادثہ پر بھی کئی تھیوریاں موجود ہیں۔
یہی کہانی نواز شریف کے اقتدار سے نکالنے جانے کے وقت بھی سنی گئی لیکن اس بار اس میں عرب ممالک شامل تھے جن کے بارے میں تاثر تھا کہ وہ نواز شریف کے بہت قریب ہیں اور شریف خاندان کو مشرف کے چنگل سے بچانے والے بھی وہی تھے، جس کا اعتراف پرویز مشرف نے خود کیا تھا۔
اب اس حوالے سے سلیم صافی نے پاکستان ا ور سعودی عرب کے درمیان آنے والی رشتے کی دراڑ پرایک کالم لکھا ہے جس میں انہوں نے ذکر کیا ہے اس وجہ کا جس کی وجہ سے عرب ممالک خاص کر یو اے ای اور سعودی عرب ان سے ناراض ہوگئے تھے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ راحیل شریف نے سعودی حکمرانوں کو یہ باور کرایا کہ میں تو فوج دینے کے لئے تیار تھا لیکن یہ نواز شریف ہی نہیں مان رہا تھا۔ یہ کر کے انہوں نے سعودی شاہوں کو اپنے حوالے سے رام کر لیا لیکن تمام نزلہ نواز شریف پر گرا دیا۔
یمن کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے ساتھ قربت اور میاں نواز شریف پر ذاتی احسانات کی وجہ سے سعودی مطمئن تھے کہ پاکستان مدد کے لئے اپنی فوج بھیجے گا لیکن یہاں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی نے شور مچادیا۔
معاملہ پارلیمنٹ میں چلا گیا اور میاں نواز شریف نے فوج بھیجنے سے انکار کرکے سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادیوں کو ناراض کردیا ۔ وہ اس قدر برہم تھے کہ یواے ای کے نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کے خلاف بہت سخت بیان بھی داغ دیا۔
ادھر جنرل راحیل شریف سعودی عرب گئے اور یہ تاثر دیا کہ وہ تو ہر طرح کی مدد کرنے کے حق میں تھے لیکن وزیراعظم آمادہ نہیں۔انہوں نے اپنی حد تک سعودیوں کو راضی کرلیا لیکن وہ میاں نوازشریف پر شدید برہم رہے اور پاناما کیس کے دوران ان کے خلاف مواد فراہم کرکے بدلہ بھی چکا دیا