وفاقی حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اہم رہنما اسلام آباد میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کی اہم پریس کانفرنس کے آغاز پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ خلفائے راشدین کا قوم ہے کہ کفر کی بنیاد پر ریاست کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر کوئی نظام نہیں چل سکتا۔
مریم نواز نے کہا کہ جو حقائق آج رکھنا چاہتی ہوں وہ چند دنوں پہلے فیصلے ہوئے وہ میری یاداشت میں واپس آگئے۔ کسی بھی ادارے کی توہین باہر سے نہیں ہوتی ادارے کے اندر سے ہوتی ہے ۔ ٹھیک فیصلہ کیا جائے تو تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے انصاف کا نظام یہ ہے کہ جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ بینچ کون سا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کو بلایا مگر آئین توڑنے پر قاسم سوری کو نہیں بلایا گیا۔
مریم نواز نے کہا کہ گزشتہ دنوں جب حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو پی ٹی آئی اس انتخاب کے خلاف سپریم کورٹ گئی، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی دیواریں پھلادی گئیں، قوم نے دیکھا کہ چھٹی کے دن رات کے اوقات میں عدالت عظمیٰ کی رجسٹری کھولی گئی، رجسٹرار گھر سے بھاگا بھاگا آیا اور درخواست طلب کی تو پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ پٹیشن ابھی تیار نہیں ہے جس پر رجسٹرار نے کہا کہ ہم بیٹھیں ہیں آپ پٹیشن تیار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا اس طرح کبھی اس سے قبل کسی مقدمے میں ہوا؟ انصاف کے حصول کے لیے لوگوں کی پٹیشنز جاتی ہیں تو انتطار میں ہی ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی جاتیں۔
مریم نواز نے کہا کہ پارٹی ہیڈ دیکھ کر آئین کی تشریح بدل جاتی ہے، اپنے ہی کئے فیصلے تبدیل کر دئیے جاتے ہیں۔ پارٹی کا ہیڈ اگر نواز شریف ہے تو اسے پارٹی کی صدارت سے نکال دیا کہا گیا کہ پارٹی کا سربراہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اسی لئے نواز شریف سے صدارت لے لی گئی۔ چوہدری شجاعت اگر کوئی حکم دیتا تو سوال ہوتا ہے مگر عمران خان اگر بطور پارٹی صدر حکم دیتا ہے تو معتبر ہوتا ہے۔ عمران خان کی دفعہ آئین کی تشریح بھی بدل جاتی ہے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے الیکشن میں 6 ووٹ مسترد ہوئے تھے، جب سپریم کورٹ گئے تو کہا گیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے رولنگ دی کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی مرضی کے خلاف جن اراکین نے ووٹ دیے ہیں وہ شمار نہیں کیے جائیں گے تو سپریم کورٹ نے بلاکر ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جب کہ وہ بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی سے بھی غلط فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن تسلسل کے ساتھ غلط فیصلے ہونا، فیصلے بانچھ نہیں ہوتے، ان کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، کچھ فیصلوں کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی دہائیوں میں ان کے اثرات مزید گہرے ہوتے جاتے ہیں۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے کی توہین کبھی بھی اس کے باہر سے نہیں ہوتی، ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، عدلیہ کی توہین کوئی شخص نہیں، اس کے متنازع فیصلوں سے ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں یہاں عدلیہ کی تعریف و توصیف میں لمبا چوڑا مضمون لکھ سکتی ہوں لیکن صرف ایک غلط فیصلہ اس پورے مقدمے کو اڑا کر رکھ دے گا اور اسی طرح اگر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اس پر کتنی بھی تنقید کی جائے، وہ تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔
مریم نواز نے کہا کہ جج کو تاحیات ہم پر نگران لگا دیا گیا ہے، ایک جج ہمیشہ ہمارے خلاف کیسز کے بینچ میں شامل ہوتا ہے، اس نے پانامہ کیس میں ہمارے لیے ایسے الفاظ استعمال کئے لیکن اسے ہمارے خلاف ہر کیس میں شامل کیا گیا۔
مریم نواز نے کہا کہ عمران خان نے ملک ریاض کی 50 ارب روپے کی طرف سے وصول ہونے والے پیسے ہڑپ کئے مگر کسی عدالت نے سو موٹو نوٹس نہیں لیا۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بات کریں تو توہین عدالت لگا دی جاتی ہے مگر توہین عدالت تب نہیں ہوئی جب عمران خان کے کہنے پر ججز کی تصویروں پر جوتیاں ماریں جسے سارے پاکستان نے دیکھا، کیا اس پر کوئی توہین عدالت لگی جبکہ ہمارے ارکان دانیال عزیز اور طلال چوہدری پر توہین عدالت کے جھوٹے مقدمات بنائے گئے اور انہیں نا اہل کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کا کہنا تھا کہ ٹرسٹی چیف منسٹرز، بلیک لا ڈکشنری جیسے منفرد خیالات کہاں سے آتے ہیں، کہاں کبھی سنا کہ کوئی ٹرسٹی چیف منسٹر ہو، جب سے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں اس وقت سے انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا، انہیں کابینہ نہیں بنانے دی گئی، کبھی وہ پارلیمنٹ جاتے ہیں اور کبھی عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔
مریم نواز نے مزید کہا کہ سرینا عیسیٰ سپریم کورٹ میں رل گئیں، عمران خان نے خود تسلیم کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے میں مجھے مس گائیڈ کیا گیا، سپریم کورٹ کے ججز اپنے فیلو جج کو انصاف فراہم نہیں کر سکے۔ لیکن فرح گوگی، شیریں مزاری اور عمران خان کی بہن کو فوری ضمانتیں دے دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان عدالت میں پیش نہیں ہوتا کہتا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے، انہوں نے کہا اگر میں کہوں کہ میری جان کو خطرہ ہے اور عدالت نہیں آسکتی تو میں دیکھتی کہ عدالت مجھے کیسے نہ آنے دیتی۔
انہوں نے کہا کہ میں 6 ماہ کسی جرم کے بغیر جیل میں رہی لیکن علیمہ خان کو کہا جاتا ہے کہ جرمانہ دیں اور جائیں، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرے پر جانے کیلئے پاسپورٹ نہیں دیا گیا، ڈھائی سال سے میں اپنے والد سے نہیں ملی، کیا یہ انصاف کا تقاضہ ہے؟
مریم نواز نے کہا کہ فارنگ فنڈنگ کیس میں ثابت ہوگیا کہ عمران خان کو بھارت اور اسرائیل سے فنڈنگ آئی، اگر یہی ہمارے خلاف کیس ہوتا تو اس کا فیصلہ کب کا آچکا ہوتا مگر پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ابھی تک نہیں آیا۔
مریم نواز نے کہا کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معیشت کی حالت ٹھیک نہیں، جب 4 سال کے دوران عمران خان ملکی معیشت کو تباہ کر رہا تھا کیا اس دوران کسی نے کوئی بیان معشیت کی تباہی سے متعلق سنا، اگر معیشت کا موازنہ کرنا ہے تو پھر اس وقت سے موازنہ ہوگا جب آپ نے نواز شریف کو نکالا تھا اورعمران خان حکومت چھوڑ کر گیا اس وقت معیشت کی کیا حالت تھی، جب عمران خان گیا تو اس وقت ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر تھی۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مریم نواز نے جو باتیں کیں ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں اور انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ بینچ سے ہمیں انصاف کی توقع نہیں ہے اس لئے ہم عدلیہ سے گزارش کرتے ہیں کہ فل بینچ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم عدلیہ سے فیصلے کی طاقت چھیننے کی کوشش نہیں کر رہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ چونکہ یہ بینچ متنازع ہو چکا ہے اس لیے فل بینچ اس کا فیصلہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ادارے پاکستان کے ہیں، اداروں کو ایک دوسرے کو سپورٹ کرنا چاہیئے، اگر ملکی حالات ٹھیک نہیں تو عدلیہ کو چایئے کہ پارلیمنٹ کو سپورٹ کرے تاکہ ہم ملک کو درست سمت میں لانے کیلئے کام کریں۔
پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ تین شخص اس ملک کا فیصلہ نہیں کر سکتے، یہ نہیں ہو سکتا کہ تین شخص اس ملک کے آئین اور جمہوریت کا فیصلہ کریں۔ ہم نے اتنے سال اس ملک کی جمہوریت کیلئے جدوجہد کی مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ تین شخص اس ملک کی جمہوریت اور آئین کو لپیٹ دیں۔
بلاول نے کہا کہ ہمارے 70نسال کا قرض ایک طرف عمران خان کا 4 سال کا قرض ایک طرف ہے، ہم نے کسی کو نہ گالی دی نہ جلاؤ گھیراؤ کیا، مریم نواز کو جیل میں ڈالا گیا، فریال تالپور کو جیل میں ڈالا گیا۔
بلاول نے کہا کہ کچھ طاقتیں اس ملک کو آمرانہ ون یونٹ بنانا چاہتی ہیں، عوام سے فیصلوں کا اختیار چھینا جارہا ہے۔ عمران خان اس ملک کے تمام اداروں کو ٹائیگر فورس کی طرح چلانا چاہتے ہیں اور اداروں کا ٹکراؤ کروانا چاہتے ہیں۔
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے غیر متنازعہ رہیں۔ ہم چاہتے ہیں ادارے جمہوری کردار ادا کریں، ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ کی عزت بھی بچانی ہے تو فل کورٹ بینچ بنائے۔ اور سارے ججز اس کیس کا فیصلہ سنائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کھل کر کہتے ہیں کہ ہمیں ان تین اشخاص پر اعتماد نہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فل کورٹ اس کیس کا فیصلہ کرے۔
بلاول نے کہا کہ فل کورٹ بینچ جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اس کو تسلیم کریں گے مگر تین اشخاص کا فیصلہ تسلیم نہیں کریں گے۔
باپ پارٹی کے رہنما خالد مگسی نے کہا کہ یہ مطالبہ درست ہے کہ فل کورٹ بینچ بنایا جائے تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں اور نہ ہی کسی انا کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے۔ اس ملک کے مسائل حل نہیں ہورہے تو جرگہ بلائیں اور اگر سب کو مل کر فیصلہ کرنا پڑے تو کریں، 70 سالوں سے یہ ملک ایسے ہی چل رہا ہے، اب یہ ملک مزید ایسے نہیں چل سکتا۔
ایمل ولی خان نے کہا یہ مطالبہ درست ہے کہ فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارٹی لیڈر کا کوئی کردار نہیں تو اس عہدے کو ختم کر دیا جائے تمام سرگرمیاں پارلیمانی لیڈر ہی سر انجام دے دیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا صرف سوچا جاسکتا ہے مگر ہو نہیں سکتا اس لئے پارٹی سربراہ کے اختیارات واضح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت، پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان تصادم ہوتا ہے تو اس کا نقصان ملک کو ہوگا، انہوں نے کہا کہ یہ وہ تمام مہرے ہیں جو ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
محسن داوڑ نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی تمام جماعتیں اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہیں تو سپریم کورٹ کا فل بینچ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کے عدالت میں داخلے پر پابندی کا فیصلہ ہی ان ججز کی بدنیتی کا ثبوت ہے۔ ملک میں وار لارڈ کلچر پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
رہنما ایم کیو ایم نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین کا اگر یہ مطالبہ ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے، اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سب کیلئے قابل قبول ہے، انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم یقین کرتی ہے کہ جمہوریت کی استحکام کیلئے انصاف کی فراہمی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے عدالت کے وقار بلند ہوگا۔
اسلم بھوتانی نے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ کسی اور ملک سے ججز کو بلا کر کیس سنا جائے، تمام ججز قابل احترام ہیں، اس بینچ میں وہ تین ججز بھی شامل ہوں گے۔ اگر فل کورٹ بنے گا تو جو فیصلہ ہوگا اس کو سب من و عن قبول بھی کریں گے۔
صحافی نے مریم نواز سے سوال کیا کہ اگر آپ کو حکومت نہیں کرنے دی جا رہی تو چھوڑ کیوں نہیں دیتے، اس کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ میرا بس چلے تو ابھی حکومت توڑ دوں۔ مجھے یہ لولی لنگڑی حکومت نہیں چاہیے۔ لیکن اگر لڑائی ہے تو پھر ہم بتانا چاہتے ہیں کہ لڑائی ہمیں بہتر لڑنا آتی ہے۔