ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف سپریم کورت میں درخواست کی سماعت جاری

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف سپریم کورت میں درخواست کی سماعت جاری
ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت شروع ہو گئی۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی جس میں شامل ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر سپریم کورٹ پہنچ گئے جبکہ پرویز الہٰی کی طرف سے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔

سابق صدر سپر یم کورٹ بار لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کر کے سنا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ سب کا بہت احترام ہے،آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا، آفریدی صاحب، یہ کیس ہمارے آرٹیکل 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے، ہم فریقین کو سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، ہم یک طرفہ فیصلہ نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ 10 سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے، دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے،

دوران سماعت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس میں فریق بننے کی درخواستیں بھی دائرکی گئی ہیں، چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ذرا ابتدائی کیس کو سننے دیں، باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے، آپ کو بھی سنیں گے لیکن ترتیب سے چلنا ہوگا، آپ بیٹھیں، امید ہے آپ کی نشست ابھی بھی خالی ہوگی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیٹ تو آنی جانی چیز ہے، سیٹ کا کیا مسئلہ ہے۔

دوران سماعت صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، مناسب ہوگا آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرثانی درخواست پہلے سن لی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اتنی کیا جلدی ہے، بھون صاحب پہلے کیس تو سن لیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہمیں بھی بار کا سابق صدر ہوں،بارصدور کا ان معاملات سے تعلق نہیں ہوناچاہیے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کا 23 جولائی کا فیصلہ پڑھ کر سنادیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا یہ تاثر کیسے ملا کہ پارلیمانی پارٹی یا ہیڈ کی بات ہوئی، جس پر وکیل عرفان قادر نے کہا کہ یہ سوال تو آپ کا ہے جس پر یہ خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا ہے، قانونی سوال یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا مؤقف الگ ہو اور پارٹی ہیڈ کا مختلف تو پھر کیا ہوگا؟

عرفان قادر کا کہنا ہے کہ واضح ہونا چاہیے کہ جس قانونی سوال پر سماعت ہو رہی ہے وہ کیا ہے، جس سوال پر سماعت ہو رہی وہ بتانا میرا کام نہیں، عدالت تعین کرے، معاملہ شاید پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے۔

چیف جسٹس نے عرفان قادر کو آئین کی کتاب سے آرٹیکل 63 اے پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی دونوں کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر موجود ہے۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میں بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہوں، بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ کیا سوال ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ عدالت کو سن تو لیں، وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ہم آرام سے اس معاملے کو سمجھ سکتے ہیں، جس پر پھر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ پہلے سنیں تو ہم کیا کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو سننے میں مشکل پیش آرہی ہے، اگلی بار عدالت کی بات کاٹی تو آپ واپس اپنی کرسی پر ہوں گے، وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ جتنا بھی ڈانٹ لیں میں برا نہیں مناؤں گا۔

وکیل عرفان قادرنے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 14 شخصی وقار اور جج کے وقار کی بات کرتا ہے، جج کو حق ہے کہ وہ وکیلوں کو ڈانٹے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ سے احترام سے بات کر رہے ہیں، آپ آرٹیکل 63 اے کو ہمارے ساتھ پڑھیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہم کسی کو ڈانٹ نہیں رہے،محترم کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں،جس پر عرفان قادر نے کہا کہ آپ محترم کہیں گے تو میں اس سے بھی زیادہ محترم کہوں گا،عدالت جو بھی سوال کرے گی جواب دوں گا، آپ ناراض ہوگئے تھے،میں عدالت کو ناراض کرنے نہیں آیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم ناراض نہیں ہیں، آپ دلائل دیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا ڈکلیئریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟ عدالتی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

قبل ازیں کورٹ روم نمبر ون پر جانے سے روکنے پر وکلا اور پولیس میں تلخ کلامی ہوئی۔ پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ بار کا کارڈ رکھنے والے وکلاء کو جانے کی اجازت دی گئی۔ اسد عمر اور عمر ایوب کو کورٹ روم نمبر ون کی طرف جانے کی اجازت دے دی گئی۔

سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، کمرۂ عدالت نمبر ایک کے باہر بھی پولیس تعینات کی گئی، اس کمرے میں صرف کیس کے فریقین داخل ہو سکتے ہیں۔

میڈیا سے رجسٹرڈ بیٹ رپورٹرز کو بھی کمرۂ عدالت نمبر ایک میں داخلے کی اجازت ہے، سپریم کورٹ کے روم نمبر 6 اور 7 میں اسپیکرز کے ذریعے عدالتی کارروائی سنی جا سکے گی۔