اکتوبر 2016 میں 'گلوبل سٹیزن' میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سب سے زیادہ کوڑا کرکٹ نیویارک شہر پیدا کرتا ہے۔ اگرچہ اسے ری سائیکل کرنے کے عمل میں جدت لائی گئی ہے لیکن ابھی بھی نیویارک میں کوڑا کرکٹ بہت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی بنک کے جائزے کے مطابق نیویارک شہر کے بعد میکسیکو شہر میں سب سے زیادہ کوڑ اکرکٹ پیدا ہوتا ہے۔ اس مطالعے میں شامل دیگر شہر ٹوکیو(جاپان)، لاس اینجلس (امریکہ)، ممبئی (انڈیا)، استنبول (ترکی)، جکارتہ (انڈونیشیا) اور قاہرہ (مصر) ہیں۔
افریقہ کے اکثر شہروں، خاص طور پر لاس (نائیجریا) میں کوڑے کرکٹ کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کے برعکس افریقہ اور جنوبی ایشیا کے شہر ابھی تک اس مسئلے کو ری سائیکلنگ کے جدید طریقے اپنا کر اس کا مؤثر حل نکالنے سے قاصر ہیں۔
کراچی میں کوڑے کرکٹ کا طوفان
جنوبی ایشیا میں ممبئی کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کوڑے کرکٹ کے بدترین مسئلے کا سامنا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب انیسویں صدی کے آخر میں کراچی کی آبادی بڑھنا شروع ہوئی تو کبھی یہ کوڑے کرکٹ کے انبار میں چھپ جاتا تو کبھی اس کا شمار خطے کے صاف ترین شہروں میں ہونے لگتا۔ یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا۔ یہ شہر اب تک کوڑے کرکٹ کے تین بڑے ادوار سے گزر چکا ہے۔ دیگر عرصے میں کراچی نسبتاً صاف دکھائی دیتا ہے۔
کراچی کو کوڑے کرکٹ کے پہلے بحران کا سامنا انیسویں صدی کے آخر میں ہوا۔ کراچی پر 1843 میں انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ اس وقت کراچی ایک چھوٹا سا تجارتی قصبہ تھا، جسے قدرتی بندرگاہ حاصل تھی۔ 1919 کے سندھ گزٹ کے مطابق 1843 میں کراچی کی آبادی بیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ یہ آبادی ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل تھی، اوروہ لیاری اور منوڑا کے علاقوں میں کچے گھروں میں رہتے تھے۔
گزٹ کے مطابق ان دونوں علاقوں کے علاوہ شہر کے بڑے حصے ویران اور غیر آباد تھے۔ ان میں جھاڑیاں اور مینگرو کے جنگل، اور کہیں کہیں ریت کے ٹیلے تھے۔ ان جنگلوں میں مختلف قسم کے جانور، جیسا کہ کتے، بلیاں، بھیڑیے، لومڑ، سانپ اور حتیٰ کہ چند ایک چیتے تک پائے جاتے تھے۔ پرندوں میں زیادہ ترچیلیں، چڑیاں، طوطے اور کوے تھے۔ منگوپیر کے مزار کے قریب ایک گہرا تالاب مگر مچھوں سے بھرا ہوا تھا (یہ ابھی بھی موجود ہے)۔
برطانوی سیاح، جغرافیے کا ماہر افسر سر رچرڈ ایف بروٹن، جنہوں نے انیسویں صدی کے وسط اور آخر میں کراچی میں قیام کیا، لکھتے ہیں کہ کراچی میں کہیں کہیں مساجد، صوفی بزرگوں کے مزارات اور ہندوؤں کے مندر تھے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ کراچی میں 'کم از کم تین قحبہ خانے' تھے اور اس شہر میں صفائی کی حالت انتہائی خراب تھی۔ مسٹر بروٹن کے مطابق کراچی کے آدمی محنتی لیکن 'وحشی' تھے، نیز خواتین شوخ رنگوں کے کپڑے پہنتیں اور بہت 'باتونی' تھیں۔ کراچی میں قتل کی وارداتیں بہت زیادہ ہوتی تھیں، اور شراب نوشی عام تھی۔
انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کو ترقی دنیا شروع کی۔ اس سے شہر کی آبادی بڑھنے لگی۔ انگریزوں نے چھاؤنی کے صاف علاقے قائم کیے، جو شہر کے آباد حصوں سے الگ تھے۔ کراچی کی آبادی، جو 1840 کی دہائی میں بیس ہزار کے قریب تھی، 1890 تک بڑھ کر ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ شہر میں کوڑے کرکٹ اور گندگی میں اضافہ ہونے لگا۔
1896 میں کلکتہ سے آنے والے ایک بحری جہاز سے نکل کر شہر میں داخل ہونے والے چوہوں اور پسوؤں کی وجہ سے طاعون کی خطرناک بیماری پھوٹ پڑی۔ جہاز سے نکل بھاگنے والے چوہوں کو کراچی کے کچرے کے ڈھیروں پر کھانے کے لئے کافی خوراک مل گئی۔ اس کے بعد وہ لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے لگے۔ 1897 تک شہر کے گنجان آباد حصے طاعون کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ اس وبا نے سینکڑوں افراد کی جان لے لی۔ برطانوی ڈاکٹروں اور روایتی طریقوں سے علاج کرنے والے مسلمان اور ہندو ڈاکٹروں نے بیماری پر قابو پانے کی پوری کوشش کی۔ متاثرہ افراد کو صحت مند افراد سے الگ رکھا جاتا۔ آخر کار 1900 میں طاعون پر قابو پا لیا گیا۔
1900 کی دہائی کے آغاز میں برطانیہ نے کراچی کے پیچیدہ سیوریج سسٹم کی تعمیر کی، اور کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا نظام بنایا۔ انتظامیہ نے باقاعدگی سے سڑکوں اور گلیوں کو صاف کرنے کا نظام بھی بنایا۔ بعض اوقات انہیں پانی سے دھویا جاتا۔ اگرچہ اُس عہد کے اعدادوشمار کے مطابق 1930 کی دہائی تک کراچی کی آبادی تین لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی، کراچی گندگی کے ڈھیرسے نکل کر پرکشش تجارتی اور کاروباری مرکز کے علاوہ ایک اچھی تفریح گاہ بھی بن گیا تھا۔ اُس وقت یہ انڈیا کا صاف ترین شہر تھا۔ اسے 'ایشیا کا پیرس' کہا جانے لگا۔
1947 میں کراچی پاکستان کا حصہ بن گیا۔ 1941 میں اس کی آبادی 435,887 تھی، لیکن 1951 تک اس میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو چکا تھا، اور یہ 161 فیصد اضافے کے ساتھ 1,137,667 ہو گئی۔ اُس وقت شہر کے وسائل پر بے پناہ دباؤ تھا، حکومت نے آنے والی آبادی کو بسانے کی کوشش کی۔ تاہم 1950-51 میں پاکستانی زرعی پیداوار کی برآمد میں اضافے سے صورتِ حال میں قدرے بہتری آئی، خاص طور پر اس لئے بھی کہ کراچی پاکستان کا معاشی مرکز اور واحد بندرگاہ رکھنے والا شہر تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ برطانوی راج کا قائم کیا گیا صفائی کا نظام بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ برداشت کر رہا تھا۔ اس کے بعد اسے ایوب خان کے صنعتی ترقی کے دور (1958-69) میں مزید جدید بنایا گیا۔ 1960 کی دہائی کے آغاز تک کراچی کی سڑکوں اور گلیوں کو پانی سے دھویا جاتا تھا۔
1966 میں کراچی صنعتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ جب تیزی سے فروغ پاتی ہوئی صنعت کاری نے دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کوملک بھر سے متوجہ کیا تو کراچی کی کچی آبادیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ 1961 میں کراچی کی آبادی 2,044,044 سے بڑھ کر 1972 میں 3,606,744 ہو گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت (1971-77) نے 1973 میں کراچی کو خوبصور ت بنانے کا پروگرام بنایا۔ لیکن یہ منصوبہ صفائی اور کوڑے کرکٹ کے مسائل، جو 1969 کے بعد سے بڑھنا شروع ہو گئے تھے، پر قابو نہ پا سکا۔
کراچی کا گرینڈ کیسنیو۔ یہ کراچی کو خوبصورت بنانے کے منصوبے کا حصہ تھا۔ یہ خطے کا سب سے بڑا کیسنیو تھا، اور اس میں وسیع وعریض جواخانہ، بار اور ایک فائیوسٹار ہوٹل تھا۔ حکومت کا منصوبہ تھا کہ بیروت میں خانہ جنگی کی وجہ سے کیسنیو بند ہو چکے تھے، چنانچہ دولت مند عربوں، امریکیوں اور یورپی سیاحوں کو کراچی کی طرف راغب کیا جائے۔ لیکن یہ کیسنیو فعال نہ ہو سکا کیونکہ اپریل 1977 میں پاکستان میں الکوحل مشروبات پر پابندی لگ گئی، اور 1977 میں ایک رجعت پسند آمر نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
کراچی میں کوڑے کرکٹ کا دوسرا مسئلہ 1980 کی دہائی میں سامنے آیا۔ اس دہائی میں شہر میں مہاجرین کی دوسری کھیپ داخل ہوئی۔ اس مرتبہ یہ افغانی تھے جو افغان خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہوئے تھے۔ کراچی کی مہاجر اور پشتون نسلوں کے درمیان تناؤ میں پہلے ہی اضافہ ہو رہا تھا۔ شہر میں جرائم کے علاوہ نشے کی عادت بڑھ گئی تھی۔ شہر کے وسائل دباؤ میں تھے۔ 1986 میں سنگین نوعیت کے نسلی فسادات بھڑک اٹھے۔ 1980 کی دہائی کے آخر تک صفائی کا نظام مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا تھا۔ 1990 کی دہائی میں نسلی فسادات نے شہر کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اس دہائی کے آخر تک شہر افسوس ناک منظر پیش کر رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کراچی کو کئی ملین ٹن کوڑے میں دفن کر دیا گیا ہے۔
جب جنرل پرویز مشرف 1999 میں شب خون مارتے ہوئے اقتدار میں آئے تو اُنہوں نے کراچی کی تباہ حال معیشت میں اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کی۔ اس میں بھاری رقوم شہر کو صاف اور خوبصورت بنانے کے منصوبوں پر صرف کی گئیں۔ ملکی معیشت میں مجموعی بہتری کی وجہ سے یہ منصوبہ کامیاب ہوا، اور شہر پر گندگی اور کوڑے کرکٹ کے چھائے ہوئے بادل چھٹنے لگے۔ کئی سالوں تک یہ شہر صاف ستھرا منظر پیش کرنے لگا۔
کراچی میں کوڑے کا تیسرا اہم مسئلہ 2011 سے پیدا ہوا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس مسئلے کو حکام نے 2017 تک بہت حد تک نظر انداز کیا، تاوقتیکہ ڈان کی ایک رپورٹ نے خبردار کیا کہ شہر کا سالڈ ویسٹ کا مسئلہ بحرانی کیفیت اختیار کر رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق شہر کے نواحی علاقے، پوش آبادیاں، پھیلتی ہوئی کچی بستیاں اور سڑکیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھیں، اورصوبائی حکومت اور میونسپل حکام کو ہر گزنہیں پتہ تھا کہ وہ اس مسئلے کا کیا حل نکالیں۔ شہر کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ صوبے میں حکومت کرنے والی لبرل اور بائیں بازو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مہاجروں کی حمایت رکھنے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے درمیان تلخ کلامی ایک معمول بن گئی۔ اس کے علاوہ 2013 میں شہر میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پاکستان تحریکِ انصاف، جسے دائیں بازو کی معتدل جماعت سمجھا جاتا ہے، بھی شہر کی پیچیدہ سماجی اور سیاسی حرکیات سے ناواقف رہی۔
2017 میں رئیل اسٹیٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ملک ریاض نے شہر میں کوڑے کرکٹ کے جمع ہونے والے پہاڑوں کو اٹھانے کے لئے اربوں روپوں کے عطیات، مشینری اور افرادی قوت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پی پی پی کی سندھ حکومت نے بھی چین سے کوڑا اٹھانے اور اسے پراسس کرنے والی طاقتور مشینری منگوانے کے لئے دو بلین ڈالر کے منصوبے پر دستخط کیے۔ ایم کیو ایم (جو اب کئی دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے) نے بھی شہر کو صاف کرنے کے لئے کئی ایک مہمیں چلائیں لیکن کوڑے کا مسئلہ نہ صرف اپنی جگہ پر موجود رہا، بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔
اس حوالے سے ایک اور مسئلہ دیواروں اور یادگاروں کو بدنما تحریوں اور تصویروں، اور پوسٹر اور پان کے داغوں سے مسخ کرنا ہے۔ بے مقصد پوسٹر اور تحریریں لگانے کی ذمہ داری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکنوں، اتائیوں اور چھوٹے کاروباری افراد پر عائد ہوتی ہے۔ بجلی کے کھمبوں پر پارٹی پرچم لگائے جاتے ہیں، لیکن پھر اُنہیں بھلا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بوسیدہ اور بدنما ہوکر کھمبوں سے لٹکے رہتے ہیں۔
حال ہی میں سندھ حکومت نے وال چاکنگ کو صاف کرنے کی مہم شروع کی لیکن پارٹی پرچموں، پوسٹروں اور پان کے داغوں سے نجات پانے کے لئے بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے کھمبوں کے ساتھ خطرناک طریقے سے لٹکی ہوئی کیبل تاروں کے الجھے ہوئے جال بھی اپنی جگہ پر ایک مسئلہ، اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی، کے الیکٹرک کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہیں۔
بدقسمتی سے شہر کے لوگ صرف مسئلے میں اضافہ کرتے ہیں، اس کے حل میں معاونت نہیں کرتے۔ دکاندار اپنا کوڑا کرکٹ اپنی دکان سے باہر پھینکنے سے ہرگز نہیں ہچکچاتے۔ لیکن بہت سے اہلِ کراچی کا کہنا ہے کہ اُنہیں شہر میں کہیں کوڑا ڈالنے والے ڈرم دکھائی نہیں دیتے ہیں۔