لکھا ہے کہ تین روزہ جماعت کے دورے پر اپنے والدین کے ساتھ جاتی۔ حالانکہ جماعت میں سہ روزہ کہیں نہیں لگتا، یہ روایت کبھی جماعت میں نہیں رہی۔ یہ تبلیغی جماعت میں ہوتا ہے، جماعت میں نہیں۔ جماعت کی قیادت تنظیمی دوروں پر جاتی ہے، خواتین یا بچے ان کے ساتھ کہیں نہیں جاتے۔ یہ جماعت میں کسی سطح پر کہیں بھی نہیں ہوتا۔ خواتین کا الگ نظم ہے اور ان کی ایکٹیویٹیز ہی الگ ہوتی ہیں۔ پہلی بات ہی جو انھوں نے اپنی پرواز تخیل سے گھڑی ہے، وہ صریحا جھوٹ پر مشتمل ہے، اس پر بیس کرتے ہوئے مزید باتیں اسی پر قیاس کر لیں۔
منصورہ جماعت اسلامی کی سیاسی و دعوتی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ہیڈکوارٹر ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ یہاں کبھی جہاد کشمیر کی تربیت کا اہتمام نہیں رہا۔ ایسا جھوٹ وہی گھڑ سکتا ہے، جس میں بےشرمی کی حد تک دیدہ دلیری ہو اور جو کبھی منصورہ نہ آیا ہو۔
منصورہ میں سمر کیمپ کے حوالے سے بھی جھوٹ لکھا گیا ہے۔ نماز، پردہ، جہاد کے بارے میں تلقین تو کوئی معیوب بات نہیں ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی احکامات ہیں، مگر جیسے لکھا گیا ہے، اس سے لگتا ہے کہ خاتون نے کبھی شرکت کیا، اسے ایسے کسی سمر کیمپ ہوا تک بھی نہیں لگی۔ نہ سمر کیمپ میں ہر نماز کے بعد لیکچر ہوتا ہے اور نہ ہی ایک ہی موضوع پر کوئی تلقین، ایسے کیمپوں کا باقاعدہ شیڈول بنتا ہے اور اس میں مختلف موضوعات پر مختلف اوقات میں ایکٹیویٹیز ہوتی ہیں۔ اسی کیمپ سے متعلق جھوٹ کا شاہکار جملہ ہے کہ نمازوں میں جہاد کا پیغام ہوتا۔ یہ کوئی جاہل فرد ہی لکھ سکتا ہے۔ نماز میں قرآنی آیات کی تلاوت ہوتی ہے، وعظ و تدریس نہیں۔ اسی طرح یہ کہ نمازوں کے بعد جو وعظ دیے جاتے، حالانکہ جماعت میں نماز کے بعد وعظ کی کوئی روایت نہیں ہے۔ اس کے لیے الگ سے دروس قرآن و درس حدیث کے اجتماعات ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی جھوٹ پر مبنی شاہکار جملہ ہے کہ دوسرے فرقوں کے خلاف نفرت اور تشدد کو فروغ دیا جاتا حالانکہ جماعت اسلامی میں کسی طرح کی کوئی فرقہ واریت ہے نہ اسے ذرہ برابر برداشت کیا جاتا ہے۔ کجا کہ اس کی تبلیغ کی جائے۔
مجھے حیرانی ہے کہ اس قدر من گھڑت اور جھوٹ پر مشتمل ایک تخیلاتی تحریر نے نیا دور جیسی ویب سائٹ پر جگہ پائی۔ اور اس سے زیادہ بددیانتی یہ کی گئی کہ تحریر میں قادیانیوں پر سیالکوٹ حملے اور عمار کی ویڈیو بھی اس کے ساتھ منسلک کر دی گئی اور یہ تاثر دیا گیا کہ شاید یہ حملہ بھی جماعت نے کروایا۔ یہ صریحا صحافتی بددیانتی ہے۔ اور اس کی آپ سے توقع نہیں تھی۔ اس پر ہماری طرف سے احتجاج نوٹ کیجیے۔
مجھے گاہے حیرانی ہوتی ہے جب ہمارے یہاں اچھا بھلا سمجھدار اور معتدل سیکولر طبقہ بھی ایسے جھوٹ، فرضی اور من گھڑت کہانیوں کا سہارا لیتا ہے۔ اور اپنے اعتدال اور برداشت کے حوالے سے اپنے آرگومنٹ کی ساری عمارت کو خود زمین بوس کر لیتا ہے۔ یہ چیز اگرچہ نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ہمارے حق میں جاتی ہے، اور ہمیں اس بددیانتی کو اپنے لیے کیش کروانا چاہیے مگر سچی بات یہ ہے کہ اس پر افسوس ہوتا ہے۔ نظریات سے ضرور اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اپنی آرا کا کھل کر اظہار بھی، مگر اس کےلیے جھوٹ گھڑنے اور ٹوسٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہت شکریہ
شمس الدین امجد
ناظم شعبہ سوشل میڈیا، جماعت اسلامی پاکستان
ادارتی نوٹ: چند روز قبل نیا دور کی انگریزی ویب سائٹ پر ماریہ علی نے اپنے والد کے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد خود پر، اپنے گھر پر، بہن بھائیوں اور والدہ پر اس کے ہونے والے اثرات پر ایک بلاگ لکھا تھا جس پر جماعت اسلامی سوشل میڈیا سے وابستہ رہنما شمس الدین امجد نے یہ جواب لکھا جسے نیا دور کے قارئین کی خدمت میں من و عن پیش کیا جا رہا ہے
ماریہ علی کی تحریر پڑھیے: