عمران خان کے سیاسی نو بالز

عمران خان کے سیاسی نو بالز
نواز شریف کی صحت سے متعلق جمعہ کے روز اپنے آبائی حلقے میانوالی میں وزیراعظم جناب عمران خان نے کہا کہ نواز شریف کو جب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھا تو میڈیکل رپورٹس یاد آ گئیں۔ جن میں لکھا تھا کہ مریض کو دل کا مسئلہ ہے، کڈنی بھی خراب ہے اور شوگر بھی بڑھی ہوئی ہے، مریض کو باہر نہ جانے دیا تو وہ کسی بھی وقت گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سوچ رہا ہوں جہاز دیکھ کر یا لندن کی ہوا لگتے ہی مریض ٹھیک ہو گیا، ابھی تک پتہ نہیں۔ لیکن اس کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے۔

ویسے تو وزیراعظم نے ہسپتال کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے نصف گھنٹہ سے زائد خطاب میں مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو سمیت شہباز شریف کو بھی آڑے ہاتھوں لیا لیکن جونہی نواز شریف کی بیماری سے متعلق انہوں نے گفتگو کی تو میڈیا نے اس کو ہائی لائٹ کیا۔ جس سے کسی کو صحت سے متعلق ترقیاتی منصوبے کا خیال تک نہ آیا بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا صارفین نے وزیراعظم کی اس تقریر پر شدید مذمت کی، ساتھ ساتھ انہیں برا بھلا کہا۔ جبکہ ٹاک شوز میں عمران خان کی باقی تقریر کو چھوڑ کر انہی آٹھ، دس جملوں پر تبادلہ خیال ہونے لگے۔

نواز شریف کی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے جعلی ہونے کے امکان کا اشارہ کرنے پر وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے توہین عدالت کا نوٹس دیا تھا۔ اسی طرح مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پریس کانفرنس میں نواز شریف کی رہائی سے متعلق کیس کی سماعت کو "اے سپیشل ڈسپنسیشن" کی ٹرم استعمال کرنے پر بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔



وزیراعظم کے اس بیان پر چند سوالات تو میرے ذہن میں ابھر آئیں کہ کیا اب عدالت وزیراعظم کو بھی توہین عدالت کے نوٹس بھجوا سکتی ہے؟ (جیسا کہ دو وزرا کو نوٹسز جاری ہوئے)۔ مکمل اختیارات رکھنے کے باوجود وزیراعظم نے نواز شریف کو باہر بھیجنے کی سنگین غلطی کیوں کی؟ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیوں نہ کیا؟ اس معاملے کی تحقیقات اگر حکومت نہیں کرے گی تو کون کرے گا اور وقت پر حکومت نے تحقیقات کیوں نہیں کی؟ جبکہ وزیراعظم نے خود نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت کی تصدیق کی تھی اور اپنے وزرا کو نواز شریف کی صحت پر سیاسی بیان بازی نہ کرنے کی ہدایات بھی کی تھیں۔

پیر کے روز وزیراعظم نے سابقہ حکومت کے شروع کردہ منصوبے ہزارہ موٹروے کے "حویلیاں تا تھاکوٹ سیکشن" کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ اور نامزد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے "عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال" کرنے کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد بدھ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے موبائل ایپ اور ریسرچ سنٹر کے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے دی جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے صرف طریقہ کار وضع کیا۔ عدلیہ کیلئے قانون سب سے زیادہ طاقتور ہے جبکہ تمام افراد برابر ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم باز نہیں آئے اور انہوں نے ایک بار پھر اپنی توپوں کا رخ اپوزیشن کی جانب کر لیا۔

اکثر اوقات اپوزیشن پر گرجنا برسنا وزیراعظم کا معمول بن چکا ہے جو کہ ان کے شایان شان  تو نہیں۔ لیکن اگر وزیراعظم کی عادت ہے تو پھر یہ اعتراضات اپوزیشن تک محدود ہونے چاہیے ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن کو نشانہ بناتے بناتے وزیراعظم کہیں توہین عدالت کے مرتکب نہ ہو جائیں۔ وزیراعظم کی قانونی ٹیم کی ذمہ داری ہے کہ اس حوالے سے ان کی رہنمائی کرے اور وزیراعظم کو خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔

وزیراعظم کے اس بیان پر ایک ٹی وی شو کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنما ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا کہ وزیراعظم کو اگر واقعی نہیں پتہ تو پھر ان کو مستعفی ہو جانا چاہیے۔ جبکہ اسی پروگرام میں پیپلز پارٹی کے رہنما و سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ وزیراعظم نے خواہ مخواہ نان پروڈکٹیو ڈسکشن کو جنم دیا۔

نواز شریف اب 4 ہفتے کیلئے علاج کی غرض سے باہر ہے اور اس مدت میں میڈیکل رپورٹس کی بنیاد پر توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔ اب اس بحث کا حکومت کو کوئی فائدہ نہیں البتہ نقصان بہت ہے۔ کیسے میڈیا سے ان کا صحت کے شعبے میں یہ سنگ میل اپوزیشن پر کیچڑ اچھالنے کی نذر ہو گیا اور توہین عدالت کی تلوار بھی ان کے سر پرلٹکتی دکھائی دے رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے دو وزرا کے معاملے میں ہوا۔

ویسے بھی آج کل حکومت کے سیارے گردش میں ہیں۔ بے روزگاری میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے، ٹماٹر مارکیٹ میں 200 سے 300 روپے فی کلو مل رہا ہے جبکہ مشیر خزانہ فرماتے ہے کہ منڈی میں ٹماٹر 17 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ ایسے میں یہ غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے۔ ڈینگی کا جن بھی رواں سال حکومت کے قابو سے نکل گیا تھا۔

وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ اپوزیشن کو چھوڑ کر بے روزگاری و مہنگائی کے خاتمے، روپے کی گرتی ہوئی قدر کو مستحکم کرنے، 50 لاکھ گھر بنانے اور 1 کروڑ نوکریوں کا وعدہ پورا کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔ کیونکہ، اگلے الیکشن میں عوام نے دوبارہ منتخب کرنے کا فیصلہ اعتراضات و بیان بازی سے اپوزیشن کی درگت بنانے پر نہیں بلکہ پنج (پانچ) سالہ کارکردگی کی بنیاد پر کرنا ہے۔