پاکستانی فلم اور ٹی وی اداکارہ ہاجرہ خان پانیزئی کی تہلکہ خیز انکشافات پر مبنی 2014 کی خود نوشت ’ Where the Opium Grows‘ کا اوریجنل ورژن لانچ کر دیا گیا۔
اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں کتاب کی لانچنگ پر کئی صحافی بھی موجود تھے اور ہاجرہ سے سخت سوالات کئے گئے۔
اس دوران اداکارہ نے تسلیم کیا کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا اک مختصر ورژن وہ 2014 میں ایمزون پر ای بک کی صورت میں جاری کر چکی ہی ۔
ہاجرہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کو نجی طورپرجاننا ایک خوفناک تجربہ تھا اوراُنہیں جاننے کی وجہ سے اُس وقت میرا کیرئیر مشکلات کا شکارہوا۔ عمران کے حامیوں نے ان کا جو ایک مسیحا کا امیج بنایا ہوا ہے وہ بہت خوفناک ہے۔
اس سے قبل سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک پوڈکاسٹ میں اداکارہ ہاجرہ خان پانیزئی نے بتایا تھا کہ انہوں نے عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے قبل ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے عمران خان سے متعلق کچھ معاملات کی پیش گوئی کی تھی۔ یہ کتاب ایک بائیوگرافی ہے جو 2014 میں لکھی تھی جب میں شوبز سے بریک لے کر لندن چلی گئی تھی۔ ان دنوں میں بہت پریشان اور کنفیوز تھی۔ یہ کتاب بنیادی طور پر ایک کتھارسس تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اندر کے غصے اور غبار کو کہیں نکالنا چاہتی تھیں تب انہیں احساس ہوا کہ انہیں کتاب لکھنی چاہئیے۔ میری سوانح حیات عام لوگوں کے لیے ایک دلچسپ کہانی ہے کیونکہ میں ایک عام لڑکی تھی جو کوئٹہ سے آئی۔ میرے ماں باپ بھی عام سے لوگ تھے۔ میرا شوبز میں کام کرنا، پارٹیوں میں جانا، وہاں پر کسی بہت معروف شخصیت سے ملاقات ہونا اور پھر اس انسان کی جانب سے آپ کا پیچھا کیا جانا، یہ سب میرے تجربات تھے۔ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا کہ آپ ہی مشہور لوگوں کے پیچھے پڑے ہوں۔ ہر کوئی ایسا نہیں ہوتا۔ میں کرکٹ کی شوقین تھی اور نا ہی سیاست سے کوئی لگاؤ تھا۔ لیکن ظاہر ہے کچھ لوگ 'قومی ہیرو' ہوتے ہیں تو آپ ان کی عزت کرتے ہیں۔ اس وقت عمران خان پاکستان کے معروف کرکٹر تھے اور انہوں نے سیاست میں ایک چھوٹے سے پریشر گروپ کی حیثیت سے آغاز کیا تھا۔ تب وہ اتنے بڑے سیاست دان نہیں تھے۔ اب تو وہ ایک سابق وزیراعظم بھی ہیں۔ غالباً یہ 2011 کی بات ہے۔ میں نے اس بارے میں کبھی بات نہیں کی کیونکہ جب میں نے کتاب لکھی تو مجھے تب اندازہ نہیں تھا کہ میں کب واپس آؤں گی۔ کتاب بھی تب شائع نہیں ہوئی تھی کیونکہ جس ایجنسی کے ساتھ میں کام کر رہی تھی اور جو میری گھوسٹ رائٹر تھیں انہوں نے ایک بہت ہی مختصر اور مخصوص ناول کی صورت میں اس کو لکھا جو کہ اصل کتاب کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔
اداکارہ نے بتایا کہ عمران خان کو اس وقت جاننے کی وجہ سے میرا کیریئر بہت زیادہ مشکلات سے دوچار ہوا۔ بعد ازاں جب کتاب شائع ہوئی تو اس سے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ میں کتاب کے بارے میں بھول گئی تھی۔ میں بہادر تھی کہ میں نے لکھی لیکن مجھے اس بارے میں بات نہیں کرنی تھی۔ کسی نے اس کتاب کے بارے میں سنا نہیں کیونکہ میں نے کبھی اس بارے میں بات ہی نہیں کی۔ 2014 میں لکھی کتاب کسی سیاسی ایجنڈا کے تحت تو نہیں لکھی تھی۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے کئی سال پہلے لکھی تھی۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم بن جائے گا اور بدقسمتی سے کتنا بڑا 'حادثہ' ثابت ہوا۔ عمران خان کے حمایتیوں نے جو اس کا ایک 'مسیحا' کا امیج بنایا ہوا ہے وہ بہت خوفناک ہے۔ مجھے اس جنریشن کے لیے بہت برا محسوس ہو رہا ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ ہمیں کسی کی نجی زندگی کے بارے میں تب تک علم نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم اس کو ذاتی طور پر جانتے نہ ہوں۔ یہ میرا ایک بہت ہی سیاہ اور خوفناک تجربہ تھا۔ عمران خان کو جاننا میرے لیے مشکلات کا سبب بنا۔ جب میں واپس آئی تو اس کے لوگوں نے میرے سوشل میڈیا کو ہیک کیا۔ میں نے چونکہ اس کے بارے میں کتاب میں بتایا تھا تو قانونی طور پر مجھے اس بتانے کے لیے ای میل کرنی پڑی۔ میری کتاب کی کتنی کاپیاں فروخت ہوئیں یا کس کس جگہ پر وہ دستیاب تھی مجھے علم نہیں ہو سکا کیوںکہ میرا ای میل بھی ہیک کیا گیا اور میں دوبارہ اس ایجنسی سے رابطہ بحال نہیں کر سکی۔ پھر انہوں نے بھی کتاب کو ڈراپ کر دیا کیونکہ اس وقت وہ بھی ان کے لیے ٹھیک نہیں تھی۔ وہ بہت برا وقت تھا۔ مجھے اتنا چھپ چھپ کر رہنا پڑا۔ مجھ پر اس کتاب کا بوجھ تھا حالانکہ وہ میری سوانح حیات تھی، میری حقیقت اور تجربات تھے۔ جتنا مجھے فلمسازی اور اداکاری کا شوق تھا اتنا ہی دور ہٹنا پڑا۔ پھر میڈیا کے لوگ ایسے ہیں کہ ان کی صرف لابنگ نہیں بلکہ گروہ ہیں جو پارٹیوں میں لڑکیوں کو بلواتے ہیں۔ ایلیٹ سرکل میں یہ بہت عام سی بات ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ کتاب میں بتایا ہے کہ جب آپ ایسی پارٹی میں جائیں اور کوئی 'قومی ہیرو' یا کوئی معروف شخص آپ کا تعاقب کرے تب لگتا ہے کہ واہ کیا بات ہے۔ لیکن پھر جب آپ اس انسان کو ذاتی طور پر جاننے لگتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کتنی بدقسمتی ہے۔ اس کتاب میں میری زندگی کی پوری حقیقت اور تجربات لکھے ہیں جنہوں نے مجھے توڑا اور بنایا۔ اس کے بعد میری سوشل میڈیا پر ٹرولنگ ہوئی۔ جس طرح پی ٹی آئی کی ایک فاشسٹ حکومت تھی تو یہ لوگ بہت سرگرم تھے۔ میڈیا میں بھی اکثریت اس کی پارٹی اور حکومت کے حمایتی تھے۔ ڈر تو ہمیشہ لگتا ہے کہ کوئی آپ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تب میرے والد بھی زندہ تھے اور پی ٹی آئی کا حصہ تھے جن کا تعارف بدقسمتی سے میں نے ہی کروایا تھا ۔
اداکارہ نے کہا کہ میں خاموشی سے کام پر آتی جاتی تھی۔ بے ہودہ ڈراموں میں برے لوگوں کے ساتھ عجیب سے کردار نبھاتی رہی۔ میرا کیریئر تباہ ہو گیا۔ میری معصومیت چلی گئی۔ لیکن بہت سے اور لوگوں کو بھی جانتی ہوں جو اس سے بھی زیادہ برے انسان ہیں۔ لوگ جو عام انسانوں کے بیچ میں نظر آتے ہیں ویسے ہوتے نہیں ہیں۔ انہیں مسیحا بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اچھے لوگ بھی ہیں جیسے نعیم الحق، جو تب زندہ تھے اور انہیں اس بارے میں علم تھا، میرے ساتھ بہت حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ وہ میرے بارے میں پریشان رہتے تھے۔ مجھے میسج کر کے میری خیریت پوچھتے تھے۔
ہاجرہ نے کہا کہ میں پہلی انسان تو نہیں ہو جو یہ بات کر رہی ہوں۔ روز کوئی نہ کوئی ٹی وی پر بیٹھا کچھ کہہ رہا ہوتا ہے۔ کیا سب لوگ ہی جھوٹ بول رہے ہیں؟ کیا سب کی باتیں بے معنی ہیں؟ کیا سب لوگ ڈرے ہوئے ہیں؟ جو آج کا پاکستان ہے میں تو 9 سال پہلے اس کا حصہ نہیں تھی۔ جو آج ہو رہا ہے۔ میں ایک معمولی سی اداکارہ ہو کر کیوں سچ بول رہی ہوں؟ یہ میں نے 2014 میں کیا تھا۔ ہر کسی کو جمہوری حق ہے جس کی مرضی حمایت کرے۔ مجھے درحقیقت اپنے والد کا تعارف کروانے پر، پارٹی کا حصہ بنانے پر شرمندگی ہے۔ لیکن اب ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ بہت ہمدرد اور لوگوں کی مدد کرنے والے انسان تھے لیکن ان کو اس پارٹی میں لانے پر مجھے بہت افسوس ہے۔ مجھے لگا تھا کہ چلو ذاتی زندگی میں عمران خان نے برا کیا ہے لیکن عوام کے لیے کچھ اچھا کیا ہو گا لیکن آپ دیکھیں کہ آج ہم لوگ کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت کہاں کھڑا ہے۔ میں کبھی ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ میرے لیے تو برا تجربہ تھا۔ بہت سے لوگوں کے کیریئر اس انسان کی وجہ سے متاثر ہوئے لیکن میرا ملک بھی بہت متاثر ہوا۔ میں بہت سی بری یادوں اور تجربات کے ساتھ جی رہی ہوں جس کا مجھے بہت افسوس ہے۔