Get Alerts

'ارشد شریف قتل: کینیا حکومت پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کر رہی'

'ارشد شریف قتل: کینیا حکومت پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کر رہی'
مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ ارشد شریف کے قتل سے متعلق کینیا کی سرکار پر عالمی طور پر دباؤ موجود ہے۔ میری خبر کے مطابق مگر کینیا کی حکومت پاکستان کی حکومت کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کر رہی۔ وہ ان دو اشخاص (خرم اور وقار) کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دے رہے۔ وہ کون ہیں، انہوں نے ارشد شریف کو اپنے پاس کیوں بلایا اور کہیں اس قتل میں ان کا کوئی کردار تو نہیں ہے۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ارشد شریف کے قتل سے متعلق بہت خوف ناک انکشافات کیے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں نے ارشد شریف کو مشورہ دیا کہ ملک چھوڑ جائیں۔ شیریں مزاری نے بھی کہا کہ ان کے سر کی قیمت رکھی گئی ہے۔ جوڈیشل کمیشن کو چاہئیے کہ عمران خان سے ضرور پوچھیں کہ انہیں کہاں سے پتہ چلا کہ ارشد شریف کی جان کو خطرہ ہے۔ یہ دونوں گواہ تو سب سے پہلے پیش ہوں۔ عمران خان سے یہ بھی پوچھنا چاہئیے کہ انہوں نے ارشد شریف کو جان بچانے کے لیے امن و امان کے حوالے سے بدنام کینیا جیسے ملک میں جانے کا مشورہ کیوں دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج والی عمران خان کی بات حقائق کے منافی ہے۔ 2014 میں بھی انہوں نے وزیر داخلہ چودھری نثار سے ریڈ زون میں داخل نہ ہونے اور پرامن احتجاج کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر بعد میں انہوں نے وعدہ خلافی کی۔ اس بار بھی اگر عمران خان نے دیکھا کہ ان کی طاقت بڑھ رہی ہے تو وہ کسی پرتشدد کارروائی سے بھی باز نہیں رہیں گے اور ان کی کوشش ہوگی کہ کاکڑ فارمولے جیسا کچھ انتظام ہو جائے۔

معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے کہا ہے کہ عمران خان کا لانگ مارچ پرامن ہوگا کیونکہ انہیں بہت واضح انداز میں پیغام دے دیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو فوج پولیس کے ساتھ مل کر کارروائی کرے گی۔ عمران خان کے اس لانگ مارچ میں اسٹیبلشمنٹ تو ان کے ساتھ نہیں ہے مگر عدلیہ کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہے یا نہیں۔ عمران خان کا ایجنڈا یہی ہوگا کہ کاکڑ فارمولے تک بات آئے مگر یہاں اسلام آباد میں جو پلیئر بیٹھے ہیں وہ بھی ہوم ورک کر کے بیٹھے ہوں گے۔

اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل سے متعلق پاکستان میں جس طرح کے بیانات سامنے آ رہے ہیں ان کا سب سے زیادہ نقصان ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کو ہوگا اور یہ نقصان پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ اس معاملے پر عمران خان سمیت کسی بھی جانب سے بیان بازی نہیں ہونی چاہئیے۔ اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ جوڈیشل کمیشن میں جمع کروائے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئیے کہ پولیس کی کرپشن اور کرایے پر قتل کے حساب سے کینیا بدترین ملکوں میں دسویں نمبر پر آتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں وہ لوگ ہونے چاہئیں جن پر ارشد شریف کی فیملی کو اعتماد ہو۔ جوڈیشل کمیشن کا کام ہوتا ہے فیکٹ فائنڈنگ کا، اصل کام ہوتا ہے کریمنل انکوائری کا لیکن ہمارے کینیا کے ساتھ اس طرح کے تعلقات نہیں ہیں کہ ہم وہاں جا کر کریمنل انکوائری کر سکیں۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے استعفے سے متعلق اعزاز سید کا کہنا تھا کہ اگرچہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنے پر (ن) لیگ میں کچھ حلقوں کو ان پر اعتراض تھا مگر اس میں فیصلہ کن کردار ان کے جوڈیشل کمیشن میں ووٹ نے ادا کیا ہے۔ ایسے استعفے بظاہر تو دیے جاتے ہیں مگر اصل میں اس طرح کے استعفے لیے جاتے ہیں۔

معروف صحافی اور اینکر پرسن تنزیلہ مظہر نے کہا کہ ارشد شریف جن لوگوں کے پاس کینیا گئے تھے وہ لوگ خیبر پختون خوا سے تھے تو ہو سکتا ہے کہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے ہی انہیں کینیا جانے کا مشورہ دیا ہو۔ کسی کو نہیں پتہ تھا کہ ارشد شریف کینیا میں ہیں۔ عمران خان سے یہ بھی پوچھنا چاہئیے کہ انہیں کیسے اور کب پتہ چلا کہ ارشد شریف کینیا میں ہیں۔ یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ پاکستان کے ایک ادارے پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔ خان صاحب سے پوچھنا چاہئیے کہ وہ کیسے اتنے پراعتماد تھے کہ پاکستان میں ارشد شریف کی جان کو خطرہ ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔