Get Alerts

کینیا میں ہلاک ہونے والے ارشد شریف کو پاکستان میں انصاف مل پائے گا؟

صرف رواں سال 2024 میں اب تک 11 صحافی قتل ہو چکے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ اس ملک میں صحافت کبھی آزاد نہیں رہی لیکن موجودہ دور یقیناً بدترین ہے، جس میں نہ قاتل پر قانون کی گرفت ہے اور نہ مقتول کو انصاف کی امید!

کینیا میں ہلاک ہونے والے ارشد شریف کو پاکستان میں انصاف مل پائے گا؟

پاکستان کی جدید صحافت کا راستہ متعین کرنے والی شخصیت ارشد شریف کی دوسری برسی بھی گزر گئی۔ ارشد شریف نے پاکستان کے عوام کو ایک ایسے گھٹن زدہ ماحول میں آواز دی جب میڈیا کے بڑے بڑے ناموں نے مصلحت کی چادڑ اوڑھ رکھی تھی۔ دور دور تک کوئی آواز نہ تھی جو رجیم چینج آپریشن کے خلاف آواز اٹھاتی۔ یہ ارشد شریف ہی تھا جس نےمظلوم کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا، ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسے معلوم تھا کہ یہاں صرف جنازوں کو اٹھانے کیلئے لوگ آتے ہیں، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے نہیں!

اپریل 2022 میں جب سندھ ہاؤس میں اراکین کو خریدنے کیلئے بولیاں لگائی جا رہی تھیں، عمران خان حکومت کے آخری دنوں میں رجیم چینج آپریشن کی تیاریاں مکمل تھیں، جب ارشد شریف کو اندازہ ہو گیا کہ اب اس کھیل کا انجام قریب ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستانی قوم نے دیکھا کہ ارشد شریف نے کس بہادری کے ساتھ آزاد میڈیا کی جنگ لڑی۔ یہ کوئی صدیوں پرانا قصہ نہیں کہ ہماری یادداشتیں کمزور پڑ جائیں۔ اگرچہ قوم اس معاملے میں کمزور واقع ہوئی ہے۔

رات 10 بجے کی ہیڈلائنز کے بعد قوم ایک ہی آواز کی منتظر رہتی تھی، 'پاکستان اور دنیا بھر میں لاکھوں دیکھنے اور سننے والوں کو ارشد شریف کا سلام'۔ ارشد شریف نے جس طرح دباؤ کا سامنا کیا، اپنے خاندان کی پروا کیے بغیر وہ لڑتا رہا، آخری وقت تک لڑتا رہا۔ کبھی غداری کے جھوٹے مقدموں میں ضمانتوں کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چکر لگاتا، کبھی دھمکیوں کا سامنا کیا تو کبھی پردے کے پیچھے کارفرما طاقتوں کو آشکار کرنے میں لگا رہا۔ وہ یہ سب کیوں کر رہا تھا؟ اسے تو کسی صدارتی تمغے کی ضرورت نہیں تھی، نا ہی وہ آزادی صحافت کا 'چیمپیئن' بننا چاہتا تھا۔ وہ تو صرف قوم کو حقائق بتا رہا تھا، وہ تلخح حقائق جن کا سامنا اشرافیہ نے کرنا کبھی پسند نہیں کیا اور نا ہی کبھی عوام کو حقائق جاننے کا موقع ملا، چاہے وہ سقوط ڈھاکہ ہو یا کارگل جنگ۔ ارشد شریف پاکستان کے ان چند صحافیوں میں سے ایک تھا جسے اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے سائفر دکھایا تھا۔ جس پر اسے کہا گیا تھا ("It carries weight")۔

پاکستان میں صحافت کا مطلب اپنے لیے موت کو دعوت دینے کے برابر ہے۔ صرف رواں سال 2024 میں اب تک 11 صحافی قتل ہو چکے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کے منہ پر کسی طمانچے سے کم نہیں۔ اس ملک میں صحافت کبھی آزاد نہیں رہی لیکن موجودہ دور یقیناً بدترین ہے، جس میں نہ قاتل پر قانون کی گرفت ہے اور نہ مقتول کو انصاف کی امید!

ظالم کے سامنے ڈٹ جانا اور مظلوم کی آواز بننا ایک نظریے کا نام ہے لیکن اس نظریے کیلئے زندگی کی بازی لگا دینا ہمیشہ صرف وطن کی مٹی سے وفا کرنے والوں کا شعار ہوتا ہے اور ارشد شریف اس فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اس نے اپنے خون سے ثابت کر دیا کہ وہ غدار نہیں تھا، وہ اسی مٹی کا بیٹا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے اسلام آباد کی وہ شام جب ایچ 11 کے قبرستان میں عوام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ جب ارشد شریف کا جسد خاکی تین دن بعد کینیا سے اسلام آباد لایا گیا تھا۔ اس دن اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ تھا، ان ہزاروں لوگوں کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال تھا کہ اخر وہ کون تھا جس نے ارشد شریف کے جسم کو خون سے نہلا دیا؟

آج ہمیں ان سوالوں کے جواب چاہئیں جو خوف کی چادر میں لپٹے ہیں۔ پاکستان میں اپنے آپ کو 'تحقیقاتی صحافت کا چیمپیئن' کہلانے والے لوگوں کی کمی نہیں لیکن جب نام ارشد شریف کا آتا ہے تو ان پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ ارشد شریف کی زبان پر ایک جملہ ('وہ کون تھا؟') جو اس کی زندگی کی آخری سانس تک اس کا ساتھ دیتا رہا۔ وہی جملہ آج ہم سے سوال کر رہا ہے کہ آخر 'وہ کون تھا؟' جس نے اسے پہلے پاکستان اور پھر دبئی چھوڑنے پرمجبور کیا؟ وہ کون تھا جس نے پاکستان میں اس پر غداری کے مقدمے قائم کروائے؟ وہ کون تھا جس نے ارشد شریف کی موت کی خبر کو ٹیلی وژن پر 'حادثہ' قرار دینے کی ہدایات دیں؟ کینیا کی عدالت نے اپنے فیصلے میں کینیا کی پولیس کا یہ دعویٰ جھوٹ قرار دیا ہے کہ ارشد شریف کی موت 'غلط شناخت' کا نتیجہ تھی۔ جس گاڑی میں ارشد شریف کا قتل ہوا اس پر پیچھے سے لگنے والی گولیاں گن مین کی پوزیشن کے دعوے کو غلط ثابت کرتی ہیں، لیکن حیران کن طور پر گاڑی کے ڈرائیور خرم احمد کو نہ تو کوئی گولی لگی اور نہ ہی ارشد شریف کی سیٹ کے پچھلے حصے پر گولی کا کوئی نشان پایا گیا! فارنزک ماہرین کے مطابق ارشد شریف پر گولیاں گاڑی روک کر چلائی گئیں۔

آخر کیوں پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے ارشد شریف قتل کیس کی سماعت کو ملتوی کیا ہے؟ کیوں تحقیقات کو منطقی انجام کی طرف نہیں بڑھایا جا رہا؟ ان سوالوں کے جواب ناصرف ارشد شریف کا خاندان مانگ رہا ہے بلکہ ہر وہ شخص اس کی تلاش میں ہے جو آزاد فضا میں سانس لینا چاہتا ہے۔ ایک ایسی فضا جہاں سب کی زندگی کا تحفظ ہو، جہاں صحافت قید نہ ہو۔ وہ کون ہے جو صحافت کا گلا گھونٹنا چاہتا ہے؟ ہمیں ایسا ہونے سے روکنا ہو گا، اپنی آنے والی نسلوں کیلئے تاکہ وہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں! یہی شہید ارشد شریف کا خواب تھا۔ اس شخص نے اپنی زندگی قربان کر دی لیکن مصلحت کا شکار نہیں ہوا۔

آج صحافت کو بھی اپنے اندر ہمت پیدا کرنا ہو گی۔ پاکستان میں صحافت کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ اس میں وہ کردار بھی بے نقاب ہو رہے ہیں جو صرف پیسے اور ذاتی مفادات کے پجاری ہیں اور دوسری طرف صحافت کی ایک ایسی نسل بھی تیار ہو رہی ہے جو حق و سچ کی آواز اٹھانے پر کمربستہ ہے۔ یہی ارشد شریف کی شناخت ہے اور یہ ہرگز شہید ارشد شریف کا 'قصور' نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ 'غلط شناخت' نہیں!

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔