سانحہ اے پی ایس: ایک صحافی کی آنکھوں دیکھی۔۔۔

سانحہ اے پی ایس: ایک صحافی کی آنکھوں دیکھی۔۔۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کی جانب سے آج سپریم کورٹ آف پاکستان میں تین رکنی بینچ نے آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے پر جیوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر سماعت کی تو پشاور کے آرمی پبلک سکول کا درناک واقعہ اور غم میں ڈوبے والدین کی آہیں اور سسکیاں آج بھی حافظے کے کسی گوشے میں تازہ ہوگئیں۔ مگر ایک حقیقت سب پر عیاں ہے کہ آرمی پبلک سکول کے حادثے کے بعد وہ کچھ راتیں جہاں ہزاروں کی تعداد میں والدین اور دنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے شہری گلے لگا کر دھاڑیں مار مار کر روتے تھے توکوئی بھی کچھ ہفتوں تک سکون کی نیند سے نہیں سویا ہوگا۔

یہ آٹھ دسمبر کا دن تھا میں پشاور یونیورسٹی، جہاں میں گریجویشن کررہا تھا، سے سیدھا پشاور ائیرپورٹ کے لئے روانہ ہوا اور معروف سماجی کارکن جبران ناصر کے پاکستان میں دہشتگردی اور سیاست پر منعقد کیے گئے تین دن کے سیمینار کے لئے کراچی پہنچ گیا۔ سیمینار کے اختتام پر میں اندرونی سندھ چلا گیا اور سندھ میں ہندو کمیونٹی کے جبری مذہبی تبدیلی پر کچھ کہانیاں اپنی ڈائری میں محفوظ کیں۔ سندھ کے ہندو اقلیتوں پر لکھنے کے لئے مجھے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر کرشنا کوہلی کے بھائی ویرجی کوہلی اور مولچند کوہلی اندرونی سندھ لیکر گئے اور اگلے رات ان کے گھر حیدر آباد قیام کے بعد 15 دسمبر کی صبح کراچی سے پشاور کی فلائٹ لیکر یونیورسٹی پہنچا۔ تھکاوٹ سے بدن چور چور تھا اور سیدھا اکر سوگیا۔ اگلے دن یونیورسٹی جانے کا موڈ بلکل نہیں تھا مگر یونیورسٹی جانا پڑا اور کچھ ہی لمحوں بعد ایک پیغام موصول ہوا کہ پشاور کے ورسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا ہے جس میں درجنوں بچے مارے گئے۔ ہمیں اس خبر پر یقین نہیں آرہا تھا کیونکہ جب بھی ہم ورسک روڈ پر واقع اپنے چچا کے گھر جاتے تھے تو ہمارا سامنا آرمی پبلک سکول کے ساتھ واقع ایک چیک پوسٹ سے ہوتا تھا جہاں ہمارا شناختی کارڈ سمیت شک کی بنیاد پر جامہ تلاشی لی جاتی تھی۔ مگر یونیورسٹی کے کینٹین میں پہنچ کر ٹی وی پر مسلسل سکول میں دہشتگردوں کے حملے کے تفصیلات نے ہمارے خوشی فہمی کو پاوٗں تلے روند دیا اور مسلسل ہلاکتوں میں اضافے کی خبریں آرہی تھی۔
رات کو پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مظاہرے میں شرکت کی جس میں مظاہرین نے پشاور کے محفوظ ترین علاقے ورسک روڈ پر واقع سکول پر حملے اور سیکیورٹی کی ناکام پر سوالات اُٹھا رہے تھے۔ ٹھیک دو دن بعد لوگوں کو آرمی پبلک سکول کے سامنے شمع روشن کرنے اور دعائیہ تقریبات کی آجازت دی گئی۔

ہم بھی ورسک روڈ کی بس میں سوار ہوکر پشاور کے آرمی پبلک سکول پہنچے۔ سکول کے گیٹ کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں بچوں کے والدین، رشتہ دار، ملکی اور بین الاقوامی میڈیا کے صحافی اور دیگر لوگ موجود تھے۔ شمعیں تو روشن تھیں مگر اس گیٹ کے سامنے شائد کوئی ایسا شخص موجود ہو جس کی انکھیں اشکبار نہیں تھی۔ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ صحافی کا ضبط بھی جواب دے جاتا تھا اور لائیو پروگرام میں وہ سسکیاں لینا شروع کردیتے تھے۔ سکول کے باہر کا ماحول ایسا تھا کہ کوئی پتھر دل انسان بھی ہمت ہار جاتا تھا۔ صحافت کا طالب علم ہوتے ہوئے ہمارے اندر کا تجسس پھر جاگ گیا اور ہم اگلے روز ارمی پبلک سکول کے ساتھ واقع ایک آبادی میں پہنچے اور زمین پر بیٹھی ایک محفل میں شریک ہوئے جہاں لوگ اس حملے پر سوالات اُٹھا رہے تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ جب سے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں تیزی آئی ہے ہمارے گاوٗں کے ساتھ سکول کے دیوار کے ساتھ فوج کی دو جیپ ہر وقت پیٹرولنگ کرتی تھی مگر گزشتہ تین دنوں سے غائب تھی اور دوسرے ان کے ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ گزشتہ روز کچھ لوگ سفید کپڑوں میں آئے تھے اور مسلسل آرمی پبلک سکول کی دیوار کی طرف اشارہ کرکے ایک گھنٹہ تک اپس میں گفتگو کررہے تھے جس پر پاس کھڑے ایک شخص نے ان کو منع کردیا کہ اپ کو بھی اٹھا لیا جائے گا بس اب چپ رہو۔

اگلے روز ہم پھر رات کو آرمی پبلک سکول پشاور پہنچے اور سکول کے کچھ طالب علموں سے گفتگو کی جو اس سکول میں زندہ بچ گئے تھے۔ ایک بچے نے تو اتنا بڑا دعویٰ کیا کہ ارمی پبلک سکول کی چھتوں پر سیکیورٹی اہلکار اور دوربین مشین گن والے ہر وقت موجود ہوتے تھے مگر گزشتہ تین دنوں سے وہ غائب تھے۔

کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ کچھ VIP بچے گزشتہ دو دنوں سے سکول سے غیر حاضر تھے جبکہ کچھ لوگوں نے ان کو سازش کا رنگ دیا مگر ہمیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ کوئی اپنے ملک کے بچوں کو کیسے مارسکتا ہے؟ باہر آئے تو کچھ لوگ دعویٰ کررہے تھے کہ عمران خان کی جانب سے میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنے کو ختم کرنے اور کوئی جواز دینے کے لئے یہ واقع کیا گیا جبکہ کچھ کی رائے تھی کہ نہیں شمالی وزیرستان میں آپریشن اور ملٹری کورٹس کے قیام کے لئے یہ سب کچھ ہوا مگر جتنی منہ اتنی باتیں اب بندہ کس پر یقین کرے؟
مگر ہمارے ذہن میں ایک تشویش تاحال زندہ تھی اور یہ سوال ہم نے بی بی سی پشاور کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے سامنے رکھ دیا کہ کیا واقع سکول میں خود کش حملہ آور داخل ہوچکے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ یہ صبح کا وقت تھا اور میں ناشتے سے فارغ ہوکر کوئی کام کررہا تھا کہ اس دوران طالبان کے ایک ترجمان کی کال موصول ہوئی اور انھوں نے مجھے یہ چونکا دینی والی خبر پہچادی کہ ہمارے خودکش بمبار پشاور کے آرمی پبلک سکول میں داخل ہوچکے ہیں اور ساتھ میں ان کے موبائل نمبرز بھی فراہم کئے گئے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ نمبر ملنے کے بعد میں نے ایک خودکش بمبار سے رابطہ کیا اور ان سے بحث کی کہ بچوں کو مارنا کونسا جہاد ہے مگر انھوں نے ایک ہی دلیل ہمارے سامنے رکھ دی کہ ادھر سے پڑھ لکھ کر یہ لوگ آرمی میں بھرتی ہونگے اور پھر ہمارے خلاف ہی آپریشنز میں حصہ لینگے اس لئے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔

ان تمام دعووں کے برعکس کچھ سوالات جو پشاور کے آرمی پبلک سکول کے بچوں کے والدین نے جیوڈیشل کمیشن میں اُٹھائے ہیں ان کا جواب دینا ضروری ہے۔ ہم اس وقت بھی مشاہدہ کررہے تھے کہ ورسک روڈ کے محفوظ ترین علاقے میں دن دیہاڑے بچوں پر یلغار ناممکن تھا کیونکہ کچھ ہی فرلانگ پر Quick Response فورس کا دفتر ہے مگر وہ پھر بھی بیالیس منٹ بعد پہنچے تب جب بچوں کو خون میں نہلایا جاچکا تھا اور پھر والدین نے سوال پوچھے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ کیا ہوا مگر جواب نہیں ملا تو پھر  فضل خان ایڈوکیٹ جیسے والدین سامنے آگئے اور ریاست کے خلاف سخت گیر موقف اپنایا اور تاحال وہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کے کردار پر سوالات اُٹھارہے ہیں۔

آرمی پبلک سکول کے والدین کا ایک سوال بہت سارے ذہنوں میں تشویش کو جنم دیتا ہے کہ دہشگردوں کو کس نے پیغام دیا کہ ایک ہال میں 107 بچوں کو ابتدائی طبی امداد کی ٹریننگ دی جارہی ہے اور وہ سیدھا وہاں پر پہنچے اور جس ہال میں ایک سو سات بچوں کو مارا گیا وہاں موجود آرمی ملازمین اور افسران کیسے زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ جیوڈیشل کمیشن رپورٹ میں بھی یہی سوالات اُٹھائے گئے ہیں جن کے جوابات دینا نہ صرف ضروری ہے بلکہ ان کو محب وطن شہری بنانے کے لئے غفلت کے مرتکب افراد کو سزائیں دینا بھی ضروری ہے کیونکہ ایسے حادثات سیاسی تباہ کاریوں کو جنم دیتے ہیں۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔