"زندگی تماشہ پارٹ ٹو، شاندر نمائش جاری ہے''

کرونا وائرس کے عتاب کا نشانہ بنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے سجائی گئی حکومتی ٹیلی تھون کو ہوئے آج تیسرا روز ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس سرکس سے کل اڑھائی ارب کے لگ بھگ روپے اکٹھے ہوئے جس پر تحریک انصاف جید علما اور انصافی ٹائیگرز خوشی سے پھولے نہیں سما رہے ۔حالانکہ یہ کل رقم درمیانے درجہ کے کاروباری حجم سے بھی کم ہے لیکن انصافی ٹائیگرز کی نظر میں حکومت وقت کا ایسا کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کے لئیے فلاح وبہبود کی عظیم ترین مثال رہے گا انشااللہ۔ اگر کوئی حجت پسند اس کارنامہ ہائے عظیم کو یہ کہہ کر جھٹلاتا ہے کہ بھائی اس کل رقم کو 22 کروڑ سے تقسیم کر کے دیکھو حاصل جواب دس روپے فی فرد کے آس پاس بنتا ہے تو اسکی پٹواری، ملک دشمن اور بھارتی ایجنٹ جیسے الزامات سے مرمت کی جاتی ہے لیکن ٹیلی تھون کا اصل حاصل یہ اڑھائی ارب سکہ رائج الوقت نہیں بلکہ یہ مباحثہ ہے کہ پاکستانی شہری فساد کی اصل جڑ ہیں جنہیں ہر دور کے محبوب دربای مبلغ مولانا طارق جمیل نے اپنے دعائیہ خطاب میں جھوٹے اور بدکردار اور ریاکار قرار دیا۔

مولانا طارق جمیل نے وزیراعظم کے کردار کی عظمت اور عوام کی بد کرداری پر مبنی اس رقت آمیز دعا سے بھرپور تاثر ابھرا کہ فساد کی اصل جڑ عوام ہی ہیں جو ایک طرف ریاکار ہیں اور دوسری طرف عوام کا نصف یعنی آدھی گواہی والی مخلوق ایسے فحش لباس زیب تن کرتی ہیں اور یوں بے باک ناچتی ہے کہ اب قہر خداوندی کرونا جیسی مہلک اور جان لیوا وبا کی شکل میں کرہ ارض پر انسانی آبادی کو ختم کر دینے کے درپہ ہے۔ مولانا کے خطاب کے اس حصے سے تو شاید کوئی بڑا طوفان کھڑا نہ ہوتا کیونکہ وہ عرصہ 40 سال سے اسی طرح خطابتے آ رہے ہیں اور ہم سنتے آ رہے ہیں انکے ان خطابات کا عوام کی اکثریت پر اثر بھی ہوتا ہے اور عوام اپنے آپ کو ہر وقت گلٹی پا کر اوقات میں رہتے ہیں اور ریاست یا حکومت سے شہری حقوق کے مطالبات سے دستبردار ہو جاتے ہیں لیکن اس ٹیلی تھون  میں مولانا شدت خطاب میں بھول گئے کہ انہوں نے عوام کے ساتھ ساتھ کچھ خواص کو بھی رگڑا لگا دیا ہے بس چھوٹی سی مس کیلکولیشن ایک بڑے تماشہ کی وجہ بن گئی۔  ہدایت کار سرمد سلطان کھوسٹ کورنٹین میں گھر بیٹھے زیر لب مسکراتے سوچ تو رہے ہونگے لگاو پابندی میری فلم " زندگی تماشہ بنی" پر ۔

خیر مولانا نے اپنی تقریر میں مکمل خیال رکھا تھا کہ کسی "خاص" کو اس وبا کا ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے اور وزیراعظم کی بلند اقبالی کا ایسا منظر کھینچا کہ دوران دعا وزیراعظم  کو بھی دو چار بار دائیں بائیں دیکھنا پڑگیا کہ عظمت کے  اس معراج پر بیٹھی شخصیت وہی ہیں یا کسی اور کا ذکر ہو رہا ہے۔  اتنی دیر میں مولانا نے ایسا ماحول بنا دیا کہ جذبات کی روانی پر قابو نہ رہا۔ بے قابو جذبات کی اسی گرمی میں مولانا نے انگشت شہادت میڈیائی بھڑوں کے چھتے میں گھسا دی ۔ اسی حرکت کا نتیجہ تھا کہ قیمتی اور پر تکلف لباسوں میں اپنے اپنے تکبر کے بت سجائے شامل محفل اینکر حضرات کے چہرے سرخ ہونا شروع ہو گئے مگر مولانا بیچارے کو پتہ ہی نہ چلا کہ ان سے کیا گناہ سرزد ہو گیا ہے؟جیسے تیسے یہ دعائیہ خطاب مکمل ہوا تو الکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہو گیا۔

ٹوئیٹر پر مولانا طارق جمیل ٹاپ ٹرینڈ بن گئے اور اینکرز نے مولانا کے وہ لتے لینے شروع کیے کہ ہر طرف رونق سی لگ گئی ۔ ملک کے مایہ ناز صحافی و اینکر پرسن حامد میر نے جو اپنی صحافت اور تجزیہ کاری کے ہنر کے باعث بہت معتبر اور انتہائی متنازع واقع ہوئے ہیں نے اپنے پروگرام اور ٹوئٹس میں مولانا کے ایسے طاق طاق کر نشانے لئیے کہ مجھے اپنی مرحوم خوش دامن کی زبانی سنے محاورے کا اصل مفہوم واضع ہو گیا " لاواں گٹے تے بیٹھا پٹیں"۔ مولانا کے خلاف آگ اگلتی آوازوں میں اگرچہ حقوق نسواں اور انسانی حقوق کی نمائندہ آوازیں بھی شامل تھیں۔ سرخ نسل کے کچھ دانشور بھی مولانا کے ساتھ اپنی ازلی دشمنی کا بدلہ لینے میدان میں اترے تھے لیکن اصل مقابلہ اینکر صاحبان اور عاشقان مولانا کے درمیان رہا باقی آوازیں نطریاتی " تعصب" کی حامل علاقائی سیاسی جماعتوں کی طرح تھیں جو الیکشن کے اکھاڑے کے باہر بیٹھے بار بار دہراتی ہیں " کوئی ساڈی وی تے سنو"۔
مولانا کی طرف سے انکے حامیوں سے زیادہ مورچہ ان میڈیا کے شکستہ دل ورکر نما صحافیوں نے سنبھال رکھا ہے جو ان بھڑ صفت اینکر حضرات کے عتاب کا دن رات نشانہ بنتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں اور میری ناقص رائے میں ٹھیک سمجھتے ہیں کہ اینکرز کی یہ غیرت و بے غیرت برگیڈ در اصل ان کے استحصال کی بڑی وجہ ہیں اور صرف سکرین پر آنے کی وجہ سے اپنے اپنے نیوز چینل میں وہی اہمیت رکھتے ہیں جو مگر مچھ کو پانی میں حاصل ہوتی ہے۔
اگرچہ اینکر حضرات نے نگران کتے (واچ ڈاگ) کا کارڈ بھی خوب کھیلا لیکن فرد، معاشرے اور ریاست کے باہمی رشتے اور ربط کو لفٹ ہی نہیں کرائی اور یوں تاثر ابھر رہا ہے کہ لڑائی پرو مولانا دھڑے اور اینکرز کے درمیان ہے جنہیں آجکل مولانا کے حلقہ بگوش پیار سے " کتے اینکرز" کہہ کر بلاتے ہیں
سیاسیات کا طالب علم ہونے کے ناتے میری ادنی رائے ہے مولانا کی بدعا سے اینکر حضرات جہم واصل ہو جائیں یا اینکر حضرات مولانا کا منہ کالا کر کے انہیں گدھے پر بٹھا کر "سمارٹ لاک ڈاؤن" کے زمانے ملک کی گلی گلی کا چکر لگوائیں جیسا کہ مولانا کا حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں ایک پرانا خطاب آجکل وائرل ہے، پر ہمیں اس سے کیا؟ اگرچہ مولانا نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اپنے تمام عجزوانکسار کو بروئے کار لاتے ہوئے "اعلی ظرفی" کا مظاہرہ کرتے ہوئے "غلطی" کا اعتراف کر لیا ہے۔ ساتھ ہی  بڑھوں کے چھتے کی ایک ایک زہریلی اور غصیلی بڑھ سے فردا فردا معافی مانگ لی ہے اور الله کی قسمیں اٹھا اٹھا کر یقین دلایا ہے کہ بندہ بشر خطا کا پتلا ہے معاف کردیں۔ لیکن مخالفین ہیں کہ انکے کلیجے ہی ٹھنڈے نہیں یوتے اب انتہائی محترم وینا ملک اور رقاصہ نرگس کو تو مولانا طارق جمیل میسر تھے اب خود مولانا اپنا "طارق جمیل" کیسے ایجاد کریں؟ شاید یہی وہ سوال ہے جو مولانا کے عاشقان کو چین نہیں لینے دیتا اور وہ مولانا سلیم صافی کو دئیے گزشتہ دنوں کے انٹرویو کے ٹوٹے نکال نکال کر قوم کو یقین دلانے کی کوشش میں ہیں کہ بھائی یہ قوم خود ہی بے غیرت یے یہ وہی باتیں ہیں، ریاکاری، جھوٹ، بدیانتی، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی انکی نس نس میں بھری ہے۔ اب دیکھیں ناں پہلے روزے پر ہی نمبواں دا جوڑا جو مرحوم زبیدہ خانم کبھی کسی باگے میں سے مفت توڑ لیا کرتی تھیں سو روپے میں بکا ہے۔  اگر ان سے کہا جائے کہ بھائی اپنی تمام تر دانشمندی جمع کر کے یہ بتائیں کیا ملاوٹ کرنے والے عوام ہیں؟؟؟ کاروبار میں ہیرہ پھیری کرنے والے عوام ہیں؟؟ تو جھٹ سے کہتے ہیں کہ اور کون ہے کیا اتوار بازار میں محترمہ بشری انصاری بیٹھ کر تھوم چھیلتی ہیں یا جاوید میانداد تین روپے کی لاگت سے بننے والا ماسک سمن آباد کے گول چکر پر عوام کو چکر دے کر 30 روپے میں بیتتا (بیجتا)ہے؟

ایسے میں اگر کوئی ہیومن سینٹرک سسٹم کا وکیل یہ سمجھانے کی کوشش کرے کہ فرد کے مفاد کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور حرص،طمع یا ذاتی مفاد پر معاشرتی مفاد کو قربان کرنے جیسے منفی رویوں کے خلاف نظام تو ریاست ہی کو بنانا ہے اور یہ کہ ایک عام شہری بیک وقت شہری بھی ہوتا ہے اور لٹیرا بھی، پچھلے چوک میں وہ لیموں یا کھجوریں بیچ رہا ہے تو اگلے چوک میں دوا یا دوھ خرید رہا ہے اس نے ملاوٹ یا گراں فروشی سے جو لوٹا آگے جا کر لٹا گیا۔ اس سارے معاملے میں وہ اخلاقی اور معاشرتی دونوں حوالوں سے گناہ کا مرتکب بھی ہوا۔ مگر اس انتہائی نچلے درجے کی ملاوٹ اور گراں فروشی سے اسے کیا ملے گا لیکن اس ساری مشق سے حکومت کو یہ فائدہ ہو گا سارا ملبہ عوام یعنی انہی بھوکے ننگے اور دو وقت کی روٹی کے لیئے در در بھٹکنے والوں پر ڈال دیا جائے گا مولانا یا سلیم صافی جیسے چٹ کپڑئیے عوام ہی کو اس لوٹ کھسوٹ کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے جسکے لئیے ،ٹی وی کیمرہ اور مائک یا مسجد کا ممبر ریاست کے آلہ کار بن کر عوام کی ایسی  کلاس لینگے کے وہ خود ہی اپنی نظروں میں گر جائے اور حکومت وقت سے اپنے شہری حقوق کی بابت استفسار یا احتجاج نہ کریں۔ ریاست ان طارق جمیلاوں اور اینکر اینکرنیوں کو اجتماعی مفاد کی بابت شعور کے عمل کو دبانے کے لئیے استعمال کر رہی ہے اور آپ کے سوکالڈ نطریاتی یا مذہبی جذبات کو ابھارنا ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔  بہت سے دوستوں کیساتھ تو یہ معاملہ اس لئیے بھی زیر بحث نہیں لایا جا سکتا کیونکہ خود جید عالم ہیں۔ بہر حال  زندگی تماشہ بنی پارٹ ٹو کی شاندار نمائش جاری ہے لیکن یاد رہے کہ کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے

مصںف پیشہ کے اعتبار سے کسان اور معلم ہیں۔ آرگینک اگریکلچر  کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک کے شعبہ میں کام کرتے ہیں۔  ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں اور عرصہ 20 سال سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے منسلک ہیں۔ کرئیر کی ابتدا ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور ڈرامہ نگار کی جسکے بعد پی ٹی وی اور parallel theater کے لئیے بھی لکھتے رہے ہیں۔