یاد رہے کہ ملک کے ایک اور سینئر صحافی کامران خان کئی دن سے عمران خان اور جہانگیر ترین کو ملانے کی مہم چلا رہے تھے۔ اور ان کے مطابق دنوں میں ایک دوسرے سے علیحدگی پر حد درجے دکھ اور درد پایا جاتا ہے۔
تاہم اب عمران خان کی حکومت میں ہی جہانگیر ترین کے خلاف وہ تحقیقات جن کے بارے میں جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی طور پر کی جا رہی ہیں جاری ہیں۔
انصار عباسی کی خبر کے مطابق ایف آئی اے اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی مشترکہ ٹیم بڑی ہی سرگرمی کے ساتھ ارب پتی جہانگیر ترین کے معلوم اور نامعلوم اثاثوں کی تحقیقات میں مصروف ہے اور اس عمل کے دوران انہوں نے ایسے تمام سرکاری و نجی اداروں سے رابطہ کیا ہے جن کے پاس جہانگیر خان ترین (جے کے ٹی) کی دولت اور کاروبار کا ریکارڈ موجود ہے۔
جے کے ٹی کیخلاف منی لانڈرنگ اور کارپوریٹ فراڈ کے الزامات کے تحت تقریباً 19؍ حکام اور نجی اداروں کو باضابطہ طور پر نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ نوٹس جاری کرتے وقت شوگر کمیشن 2020ء کی انکوائری رپورٹ کو مدنظر رکھا گیا ہے جو معلومات طلب کی گئی ہیں ان میں تقریباً جے کے ٹی اور ان کے ارد گرد موجود لوگوں کی ممکنہ طور پر ہر ملکیت شامل ہے۔
ایسے افراد میں ان کے اہل خانہ اور اہم ملازمین شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نوٹسز میں جے کے ٹی سے وابستہ 22؍ افراد اور کمپنیوں کا ذکر شامل ہے۔ ایف آئی اے / ایس ای سی پی نے تمام بینک اکاؤنٹس، شیئرز، جائیدادوں، کمپنیوں اور ان کا تمام ریکارڈ، آمدنی اور ویلتھ ٹیکس کے ریٹرنز، آؤٹ ورڈ ریمیٹنس، فکسڈ ڈپازٹ، کریڈٹ کارڈز، رننگ فنانس، لاکرز کی تفصیلات وغیرہ شامل ہیں۔
جن 22؍ افراد اور کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں جہانگیر ترین، علی خان ترین، مسز آمنہ ترین، مریم ترین سیٹھی، مہر ترین، سحر خان ترین، پرنسلی جیٹس، یونیورسل برادرز، عین ٹریڈرز، الکریم انٹرنیشنل ٹریولز، محمد ردیق، مقصود احمد مالہی، ولید فاروقی، رانا نسیم، سید احمد محمود، سید مصطفیٰ محمود، حسن منیب، السراج ویلفیئر، رانا عذیر نعیم، بلال جبار، سجاد احمد فخری اور عامر وارث شامل ہیں۔
اس کے علاوہ، چیئرمین کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر ملتان، ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان، ڈپٹی کمشنر لاہور، منتظم بحریہ ٹاؤن کراچی اور منتظم بحریہ ٹاؤن لاہور سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں آنے والی حد، نجی یا کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں ان 22؍ افراد اور کمپنیوں کے نام پر موجود ملکیت کی تفصیلات پیش کریں۔
17؍ اگست کو انہیں بھیجے گئے خط میں ان سے کہا گیا ہے کہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے سیکشن 25؍ کے تحت مذکورہ بالا افراد یا کمپنیوں کی ملکیت میں آنے والی غیر منقولہ جائیدادوں کی تفصیلات پیش کریں۔
چیف کمشنر (آئی آر)، لارج ٹیکس پیئر یونٹ لاہور سے بھی کہا گیا ہے کہ ان 22؍ افراد یا کمپنیوں کے سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز اور ویلتھ ٹیکس کے گوشواروں کی تفصیلات پیش کریں۔ اسٹیٹ بینک سے بھی رابطہ کیا گیا ہے کہ ان افراد یا کمپنیوں سے جڑی ’’آؤٹ ورڈ فارن ریمیٹنس‘‘ کی تفصیلات پیش کی جائیں جو انہوں نے پاکستان میں قائم کسی کمرشل بینک یا ایس بی پی میں رجسٹرڈ کسی ایکسچینج کمپنی کے ذریعے کر رکھی ہوں۔