سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات کے حوالے سے دو قوانین روک دیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت سینیٹ میں تاحال اقلیت میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان دو بلوں کو یہ پاس کروانے میں ناکام رہی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے آج صبح کچھ ٹوئیٹس کی ہیں جن کے مطابق اپوزیشن نے دو انتہائی اہم بل جن میں سے ایک منی لانڈرنگ کو روکنے کے حوالے سے تھا جب کہ دوسرا ICT وقف سے متعلق تھا، انہیں شکست دے دی گئی ہے۔ انہوں نے اپوزیشن پر ایک مرتبہ پھر ملک سے غداری کا الزام لگایا جو کہ اب تحریکِ انصاف کا شاید وطیرہ ہی بن گیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ چونکہ احتساب کا پھندا ٹائٹ ہوتا جا رہا ہے، اپوزیشن لیڈر اپنی کرپشن سے بنائی گئی دولت کو بچانے کے لئے ہر حد تک جا رہے ہیں اور پارلیمنٹ کو کام کرنے سے روک رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے لکھا کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ پاکستان FATF کی گرے لسٹ سے نہ نکل سکے۔
عمران خان نے مزید لکھا کہ اپوزیشن جمہوریت کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے کیونکہ یہ دراصل اپنا لوٹ کا مال بچانے کی کوشش میں ہے۔ یہ حکومت کو NRO کے لئے بلیک میل کرنا چاہتی ہے، اور اس مقصد کے لئے نیب کو بھی بدنام کرتی ہے اور اپنے اس مقصد کے حصول میں اگر اس کو پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھنا پڑے تو یہ وہ بھی کرنے کو تیار ہے چاہے ملک کی معیشت تباہ ہو جائے اور غربت مزید بڑھتی رہے۔ یہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ اگر انہیں NRO نہ دیا گیا تو یہ حکومت کو گرا دیں گے۔ لیکن انہوں نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ وہ کسی بھی صورت NRO نہیں دیں گے۔
وزیر اعظم کے جواب میں پیپلز پارٹی کی لیڈر محتمہ شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے اس بل کو شکست اس لئے دی کیونکہ اس میں ایسی شقیں تھیں جن کے تحت یہ قانون حکومت کو کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرنے کی اجازت دیتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ تو FATF کا مطالبہ ہے اور نہ ہی کسی بھی بری سے بری جمہوریت میں اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ یہ قوانین ایک خوفناک قسم کا ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے تھے۔
شیری رحمٰن سے پہلے اس بل پر مسلم لیگ نواز کے رہنما اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی بات کر چکے ہیں اور انہوں نے بھی انہی تحفظات کا اظہار کیا تھا جو شیری رحمٰن بتا رہی ہیں۔
جولائی کے آخر میں انہوں نے آج ٹی وی پر بات عاصمہ شیرازی کے پروگرام فیصلہ آپ کا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ان قانونی مسودوں کے حوالے سے حکومتی کمیٹی اپوزیشن کے پاس آئی تو وہ بڑے حیران ہوئے اور کہا کہ میں نے اتنی طاقتور کمیٹی کبھی نہیں دیکھی تھی تو میں نے کہا کہ آپ کے پاس اس بل پر مذاکرات کا مینڈیٹ ہے؟ کیونکہ میرے پاس اپنی جماعت کی طرف سے یہ مینڈیٹ موجود ہے اور جو میں اس میز پر کہوں گا، وہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق نائیک صاحب نے کہا کہ میرے پاس بھی مینڈیٹ ہے، جو میں کہوں گا، وہ میری جماعت کی جانب سے کیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے بھی کہا کہ ان کے پاس بھی یہ مینڈیٹ موجود تھا۔
دو بل آئے جو FATF سے متعلقہ تھے۔ ان میں سے ایک سلامتی کونسل کے حوالے سے تھا اور دوسرا اس سے متصل ایک اور بل تھا جو کہ انسداد دہشتگردی سے متعلق تھا۔
شاہد خاقان عباسی کے مطابق ہم نے انہیں بتایا کہ ان مسودوں میں کچھ خامیاں ہیں، انہیں دور کر دیں ورنہ یہ بل ناقابلِ عمل ہو جائیں گے، اور ان سب نے مانا کہ یہ بات درست ہے۔ وہ دونوں بل تقریباً آدھے گھنٹے میں پورے ہو گئے۔
تیسرا بل انسداد دہشتگردی ایکٹ کے اندر معاشی دہشتگردی سے متعلق ایک ترمیم تھی۔ یہ تینوں بل قومی اسمبلی سے آئے تھے۔ ہم نے کہا کہ جناب آپ نے یہ بل پڑھا ہے؟ یہ کس نے لکھا ہے؟ سب چپ ہو گئے۔ میں نے انہیں کہا کہ یہ بل جو کچھ ہندوستان، ایک غاصب ملک، کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ کر رہا ہے، جو اس کو قانونی کور دیا گیا ہے، یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یعنی وہ بل اگر آپ پاس کرتے ہیں تو نہ ملک میں جمہوریت رہے گی، نہ ملک میں انصاف رہے گا۔ یعنی آپ کسی بھی شخص کو اٹھا کر 180 دن کے لئے غائب کر سکتے ہیں۔ یہ لکھا تھا اس بل میں۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ جو کمیٹیاں اس عمل کی نگرانی کرنے کے لئے بنائی جانی تھیں، یہ دو کمیٹیاں تھیں، ایک صوبائی سطح پر اور ایک وفاقی سطح پر، اس میں ان کے اراکین کا بھی بتایا گیا تھا۔ پاکستان کے تمام حساس اداروں کے ممبران ان کمیٹیوں کے ممبر تھے۔ آپ کبھی یہ سوچ سکتے ہیں؟ یہ لوگ ان کمیٹیوں کے ممبر ہوتے جو یہ فیصلہ کریں گی کہ کن لوگوں کو اٹھانا ہے۔