اگرچہ پاکستان کی کوشش تھی کہ وہ گلوبل ٹیرر واچ لسٹ میں رکھے جانے سے بچ جائے، لیکن اگر گذشتہ فروری میں ہونے والی میٹنگ کے ماحول کو دیکھا جائے تو گرے لسٹ میں رہنا بھی پاکستان کی کامیابی شمار ہوگی۔ اس سے پہلے پاکستان 2012 سے 2015 تک گرے لسٹ میں رہا ہے۔
غیر معمولی جانچ پڑتال
ایف اے ٹی ایف کی فروری کی میٹنگ اسلام آباد کے لئے انتہائی پریشان کن تھی۔ امریکہ نے غیر معمولی طور پر سیکنڈ میٹنگ کا مطالبہ کیا تاکہ پاکستان کے سٹیٹس پر نظرِ ثانی کی جائے۔ اس سے پہلے پاکستان کے اُس وقت کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے ٹویٹ پیغام میں خود کو مبارکباد دے ڈالی تھی۔
Our efforts paid,FATF Paris 20Feb meeting conclusion on US led motion to put Pakistan on watch list
-No consensus for nominating Pakistan
-proposing 3months pause &asking APG for another report to b considered in June الحمداللہ
Grateful to friends who helped
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) February 20, 2018
نہ صرف یہ سفارتی حماقت پاکستان کے لئے شرمندگی کا باعث بنی بلکہ امریکہ خواجہ آصف پر میٹنگ کی تفصیل فاش کرنے کا الزام بھی لگا رہا تھا۔ ٹویٹ میں جن دعووں کا ذکر کیا گیا تھا، وہ درحقیقت غلط تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان کو کوئی رعایت نہیں دی گئی تھی۔ اسے صرف اپنی نازک صورتِ حال کی وضاحت کے لئے کچھ وقت دیا گیا تھا۔
لیکن جب امریکہ نے دوسری مرتبہ رائے شماری کا مطالبہ کیا تو پاکستان کے ہاتھ سے وقت نکل گیا۔ اس میں چین اور سعودی عرب تک نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا۔ ترکی کے سوا پاکستان کے حق میں کسی ملک نے ووٹ نہ ڈالا۔ اُس میٹنگ میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ کوئی واضح منصوبہ سامنے رکھتے ہوئے دہشتگردی پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔
ایسا کرنے میں ناکامی پر پاکستان کو بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔ اور ایران اور شمالی کوریا کے بعد پاکستان بلیک لسٹ ہونے والا تیسرا ملک ہوگا۔
دہشتگرد تنظیموں کی مالی معاونت اور عالمی تنہائی
ایف اے ٹی ایف کی انچاس سفارشات پر پاکستان نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ابھی تک اسلام آباد نے منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کی مالی معاونت روکنے پر ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عمل نہیں کیا ہے۔
اگر ملک ممکنہ طور پر بلیک لسٹ ہو جاتا ہے تو یہ پیش رفت اس کی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ اسے عالمی بنکنگ نیٹ ورک کی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ گذشتہ سال حبیب بنک کو امریکہ سے نکل جانے کا کہا گیا کیونکہ دہشتگرد تنظیموں نے اس کے ناقص نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مالیاتی ترسیلات کی تھیں۔ اس پر حبیب بنک کو 225 ملین ڈالر جرمانہ کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل گروہ ابھی تک اپنے یا اپنے معاونین کے ناموں سے بنک اکاؤنٹس رکھتے ہیں، حالانکہ اُنہیں ختم کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کی بجائے اُنہیں فلاحی تنظیموں کے روپ میں کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کا معاشی مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انتہا پسند تنظیموں کو مرکزی دھارے میں لانے کی خطرناک کوشش
بلاشبہ ڈاکٹر شمشاد اختر اور اُن کی ٹیم نے پیرس جانے سے پہلے اپنا ہوم ورک کر لیا ہوگا۔ اُنہیں پتہ ہوگا کہ ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ میں کیا کرنا ہے۔ دنیا گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ پاکستان جہادی عناصر کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ فروری میں ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ میں بھی اس موضوع پر بات ہوئی تھی۔
اس مرتبہ بھی پاکستانی وفد کو بہت سی وضاحتیں دینا ہوں گی کہ لشکرِ طیبہ سے وابستہ ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل)، سپاہِ صحابہ نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی اہل سنت والجماعت (اے ایس ڈبلیو جے) کے نمائندے عام انتخابات میں کیونکر حصہ لے رہے ہیں، جبکہ تحریکِ لبیک ایک رجسٹرڈ جماعت کے طور پر میدان میں ہے۔
ھوڑی سی تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ پارلیمان نے ان گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے کوئی گائیڈ لائن طے نہیں کی۔ اس ضمن میں ہونے والی تمام پیش رفت اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان تنظیموں نے خود کو نیا نام دے رکھا ہے، اور وہ کس طرح بنک اکاؤنٹس کے ذریعے بھاری بھرکم ترسیلات کرتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ گروہ کسی نئے بینر تلے انتخابات میں حصہ لے رہے ہوں گے، یا ان سے وابستہ افراد آزاد امیدواروں کے طور پر میدان میں اتریں گے تو پاکستان کے پاس پیرس میں کہنے کے لئے اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ یہ ان گروہوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں لانے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔
تاہم تھوڑی سی تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آجائے گی کہ پارلیمان نے ان گروہوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لئے کوئی گائیڈ لائن طے نہیں کی۔ اس ضمن میں ہونے والی تمام پیش رفت اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ تاریخی طور پر اسٹبلشمنٹ ہی ان گروہوں کو اپنے تزویراتی اثاثوں کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔
آنکھوں میں دھول جھونکنے والے وقتی اقدامات
فروری میں ایف اے ٹی ایف کی ہونے والی میٹنگ میں صدر ممنون حسین نے اینٹی ٹیررازم آرڈیننس 2018 جاری کیا تھا۔ یہ آرڈیننس اُن تمام گروہوں پر ملک بھر میں پابندی لگاتا ہے جو اقوامِ متحدہ کی دہشتگرد گروہوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسی طرح سکیورٹی اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے 20 جون کو ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے مطابق اینٹی منی لانڈرنگ اور کاؤنٹر فنانسنگ آف ٹیرر ازم ریگولیشنز 2018 جاری کیا۔ یہ پیش رفت نیشنل سکیورٹی کمیٹی (این ایس سی) کی طرف سے اَٹھ جون کو 'ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون کے عزم' کی یقین دہانی کے بعد دیکھنے میں آئی۔
یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ پاکستان اس دکھاوے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ تو عارضی اقدامات کے زمرے میں بھی نہیں آتے۔ ایف اے ٹی ایف کی میٹنگ کے وقت قریب آنے پر پاکستان جو کچھ کرتا ہے، اس سے اس کی غیر سنجیدگی، بلکہ مجرمانہ غفلت ظاہر ہوتی ہے۔ آخری لمحے پر کی گئی کوشش خراب نیت کی عکاس ہے۔ ان سے اس سادہ سی حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ جن افراد سے اعلیٰ سطحی عالمی میٹنگز میں سکیورٹی اور انسدادِ دہشتگردی کی دہری پالیسیوں پر ملک کا دفاع کرنے کو کہا جاتا ہے، وہ دراصل ان پالیسیوں کے بنانے والے نہیں ہوتے ۔
امید کے بجھتے ہوئے چراغ
ان حقائق پر غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان بلیک لسٹ ہونے سے بچنے کے لئے کچھ نہیں کر پایا ہے۔ اسلام آباد صرف اس پر ہی سکون کا سانس لے رہا ہے کہ وہ گرے لسٹ میں ہے۔ اور وہ ماضی میں بھی گرے لسٹ میں رہنے کا تجربہ رکھتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ایک مسئلے کے طور پر شناخت کرتا ہے۔ چنانچہ واشنگٹن ایف اے ٹی ایف جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان کا بازو مروڑنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔ تاہم، جیسا کہ ماضی میں کئی مرتبہ کہا جا چکا ہے کہ جس بات کے لئے امریکہ، اور چین، پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں، وہ پاکستان کی اپنی سکیورٹی کی صورتِ حال کو بہتر بنانے کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک پالیسی ساز تبدیل نہیں ہوتے۔