پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا GHQ کی کامیابی لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا

پاکستان کا گرے لسٹ سے نکلنا GHQ کی کامیابی لیکن کھیل ابھی ختم نہیں ہوا
پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلوانے کا کریڈٹ ہر کوئی لینا چاہتا ہے۔ PDM حکومت میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کرنے والی وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور اور برسلز میں اس سفارتی مشن کی سربراہی کرنے والی حنا ربانی کھر نے 'مشترکہ کاوشوں' کو اس کامیابی کا حق دار ٹھہرایا ہے۔ PTI بھی کسی سے پیچھے کیوں رہے؟ یہ بھی ہر ایک کو یاد کرواتی پھر رہی ہے کہ 2018 میں PMLN حکومت ختم ہونے کے بعد جب پاکستان کو ایک بار پھر FATF کی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تو اس سے نکالنے کے لئے باقی ماندہ قانونی اور انتظامی رکاوٹیں اسی کی حکومت نے دور کی تھیں۔ اب PTI کے علی زیدی حبیب بینک لیمیٹڈ کے صدر سلطان علی اللانا کو شاباشی دے رہے ہیں جنہوں نے مالیاتی معاملات، قانون اور انسداد دہشتگردی آپریشنز کے ماہرین کی ایک ٹیم کے لئے رقم مہیا کی جنہوں نے تحقیق کر کے یورپی یونین کے لئے ایک بہترین مسودہ تیار کیا۔

دوسروں کی دیکھا دیکھی بہرحال ISPR نے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی انتھک جدوجہد کی تعریف کی ہے جنہوں نے GHQ میں ایک ٹیم بٹھائی جس کا کام تھا کہ وہ مختلف گروہوں کی کاوشوں کو منظم اور مرتب کر کے معاملے کو درست سمت میں لے کر چلے۔

ہر طرف مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ پھندا ریاستِ پاکستان کی گردن کے گرد کچھ جرائم کی آزادی اور کچھ معاملات میں انہیں ہونے سے روکنے میں ناکامی کے باعث 2008 سے لٹکا ہوا تھا۔ ایک ایسا ملک جو اس وقت اپنی عالمی تنہائی دور کرنے اور دیوالیہ پن سے بچنے کی کوشش میں جٹا ہے اس کے لئے واپس بلیک لسٹ میں ڈالے جانا اور پابندیوں کا سامنا کرنا ایک بہت خطرناک پیش رفت ہوتی۔ لیکن FATF میں کب کیا ہوتا رہا، اس پر ایک نظر ڈالیں تو ایک نیا زاویہ سامنے آتا ہے۔

پاکستان کو 2008 میں گرے 'مانیٹرنگ' زون میں PPP کے اقتدار میں آنے کے چند ہی روز بعد ڈالا گیا تھا اور 2010 میں نکال لیا گیا تھا جب زرداری حکومت نے منی لانڈرنگ کے خلاف ایک قانون پاس کر کے یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان اپنے انسدادِ منی لانڈرنگ قوانین میں بہتری لا رہا ہے۔ 2012 میں FATF کے تمام مطالبات پورے نہ کرنے کے باعث اسے ایک بار پھر گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ 2015 میں نواز شریف کے دور میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں اور پاکستان ایک بار پھر FATF کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا جب FATF نے تسلیم کیا کہ "پاکستان نے ایسا قانونی فریم ورک تیار کر لیا ہے جو ایکشن پلان کے حوالے سے کروائی گئی یقین دہانیوں کے مطابق ہے"۔

لیکن جب 2018 میں ملک جولائی انتخابات کی طرف بڑھ رہا تھا، FATF نے ایک بار پھر پاکستان پر اپنی سرزمین دہشتگردی کے لئے استعمال ہونے سے روکنے میں ناکامی کا الزام لگا کر اسے واپس گرے لسٹ میں ڈال دیا۔ FATF کے ایشیا پیسفک گروپ کی سربراہی نریندر مودی کے بھارت کے ہاتھ میں تھی اور اس نے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کر دیا۔ 'کالعدم تنظیمیں' جن میں زیادہ تر بھارت کے خلاف کشمیر میں سرگرم تھیں، مثلاً لشکر طیبہ، جیشِ محمد، جماعت الدعوۃ وغیرہ، 'ہائی رسک' قرار دے دی گئیں۔

PTI دورِ حکومت میں FATF نے پاکستان پر 29 شرائط پوری کرنے پر زور دیا اور اکتوبر 2020 تک پاکستان FBR، SECP، کسٹمز وغیرہ کے قوانین میں دونوں ایوانوں سے قانونی ترامیم کروا کے ان میں سے 21 پر عملدرآمد کر چکا تھا۔ پھر دسمبر 2020 میں پاکستان نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ اور 2008 کے ممبئی حملے کا خود کریڈٹ لینے والے حافظ سعید کو گرفتار کر لیا۔ یہ FATF کے بنیادی مطالبات میں سے ایک تھا۔ اس کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دو ماہ بعد ممبئی حملے میں ملوث ایک اور جماعت الدعوۃ کے دہشتگرد ذکی الرحمان لکھوی کو گرفتار کیا گیا۔ جنوری 2021 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی FATF کی شرائط کے مطابق اپنے قوانین میں ترمیم کر لی۔

آخری تین شرائط پوری کرنے میں پورا ایک برس لگا۔ FIA اور NAB نے ذرا پھرتی دکھائی اور بینکوں نے سیاسی طور پر بااثر لوگوں کے پیسے کے لین دین پر کڑی نگرانی شروع کی۔ لیکن لچک FATF نے اپریل 2022 میں حافظ سعید کو 33 سال کی سزا ہونے کے بعد دکھائی۔ 14 جون کو برلن میں ہونے والے چار روزہ سیشن کے بعد FATF نے تسلیم کر لیا کہ پاکستان نے تمام 34 شرائط پر عملدرآمد کیا ہے۔ اب یہ پاکستان کو تھپکی دینے کے لئے اسلام آباد ایک ٹیم بھیج رہا ہے، اور یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان میں ایک نئی حکومت عنانِ اقتدار سنبھال چکی ہے اور یورپی یونین اور امریکہ اس حکومت کے اتنے خلاف نہیں جتنے یہ PTI حکومت کے تھے حالانکہ FATF کے حوالے سے زیادہ تر کام پچھلے دو سالوں میں ہی ہوا ہے۔

یہ حقائق ISPR کے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ PTI حکومت پر یہ سب کرنے کا دباؤ GHQ سے آ رہا تھا، عمران خان کی طرف سے نہیں جو کہ عمومی طور پر بھارت مخالف، یورپی یونین مخالف اور امریکہ مخالف خیالات کے مالک ہیں۔ لیکن اس منطق کے تحت تو یہ سوال بھی ضرور ہو سکتا ہے کہ GHQ نے 2008 کے بعد سے ہی یہ راستہ کیوں اختیار نہ کیا جب کہ اس حوالے سے کبھی بھی کوئی شک نہیں تھا کہ بھارت مخالف جہادی تنظیموں کو کشمیریوں کی بھارتی قبضے کے خلام مزاحمت کرنے کے لئے ٹریننگ کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2008 میں جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد جنہوں نے کشمیر کے 'حل' کے لئے ایک تاریخی سمجھوتے کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگا دیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کا بھارت کی طرف غیر لچکدار رویہ بات چیت کے ذریعے معاملات کے حل میں مسلسل رکاوٹ تھا تاوقتیکہ 2020 میں جنرل باجوہ نے پالیسی کا مرکزی نکتہ سکیورٹی کے بجائے معاشی ترقی کو بنانے کا اعلان کیا اور اسی سوچ کے تحت لائن آف کنٹرول پر بھارت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔

اس تناظر میں ایک اہم پیش رفت کو مت بھولیے جس نے اس بیانیے کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جب 2014 سے 2016 کے درمیان وزیر اعظم نواز شریف نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کا دروازہ کھولنا چاہتے تھے تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ISI سربراہ لیفٹننٹ جنرل رضوان اختر اور PTI سربراہ عمران خان نے ان کی ہر کوشش کو ناکام بنایا۔ اس کا خمیازہ نواز شریف کو بھگتنا پڑا۔ ستم ظریفی تو یہ تھی کہ بعد ازاں جب جنرل باجوہ نے پالیسی کا مرکزی نکتہ معاشی ترقی کو بنانے کی کوشش کی تو یہ عمران خان تھے جو دقیانوسی سکیورٹی کے نظریے پر بضد تھے۔

اسٹیبلشمنٹ نے ایک 70 سال پرانے مسئلے کو حل کرنا بالآخر شروع کر دیا ہے کیونکہ امریکی امداد بند ہو چکی ہے اور پاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور تکلیف دہ U-turn لیا جائے۔ اچھی بات یہ ہے کہ نئی PDM حکومت بھی اس پالیسی ہی کو آگے لے کر چلنے کی داعی ہے۔ لیکن دہائیوں سے چلا آ رہا سول ملٹری تنازع حل کر کے ایک آئینی، غیر وابستہ، نارمل تجارتی ریاست بنے بغیر یہ پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوگا۔

نجم سیٹھی پاکستان کے مانے ہوئے صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ وہ انگریزی ہفت نامے دی فرائیڈے ٹائمز کے مدیر، وین گارڈ پبلیشرز سے چیف ایگزیکٹو ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔