اگر آپ رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹ چکے ہوں، کرونا کے باوجود دل کھول کر عید منا لی ہو ، پھر مئی کے مہینے کا آغاز ، یومِ مزدور سے کرنے کے بعد، دو مئی اسامہ بن لادن آپریشن کے غم کو تازہ کرکے، یومِ تکبیر ایٹمی دھماکوں کے جشن پر شاندار طریقے سے ختم کر لیا ہوتو چلیں اب تیاری پکڑ لیں کیونکہ جون میں ایک با ر پھر فائنینشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں پیشی کی تاریخ نزدیک آرہی ہے ۔ نیلے پیلے اودے سُرخ ہرے نارنجی رنگوں سے سجے کسی نجی ٹی وی نے قوم کو یہ نہیں بتایا ہوگا کہ سال دو ہزار اکیس بھی نصف ختم ہوچلا ہے اور پاک قوم آج بھی گرے لسٹ میں شامل ہے۔
اُدھر مہنگائی سے پریشان قوم جو کہ آج بھی گراسری لسٹ کے پریشان کن دائرے کے گرد گھوم رہی ہے، اسے ویسے بھی کسی دوسری گرے یا بلیک لسٹ سے کوئی غرض نہیں کیونکہ اس بارے میں انہیں آگہی ہی نہیں دی جاتی۔ موجودہ حکومت کی ترجیحات کے انتشار نے کارکردگی پر پیجیدہ اثرات مرتب کئے ہیں، ارباب اختیار نے احتساب کو اپنا انتخابی وعدہ اولین ترجیح بنا کر باقی دیگر اہم امور کو پسِ پشت ڈال رکھا ہے،ایک بڑی عالمی رسوائی سے جان چھڑانے کے بجائے جہانگیر ترین کے سرجیکل اسٹرائک کا تدارک کرنے میں سب جٹ گئے ہیں، لیکن یاد رہے کہ عالمی اداروں کی جانب سے دی گئی تاریخیں تو اپنے وقت پرلازمی آئیں گی اور اس کے لئے آپ کو نہ صرف تیار رہنا ہوگا بلکہ تسلی بخش جواب بھی تیار رکھنا ہوگا ۔ فیٹف ٹیم کہیں یہ نہ سوچے کہ- “ کچھ کٹی ہمتِ سوال میں عمر ۔ کچھ اُمیدِ جواب میں گزری”
واضح رہے کہ گرے لسٹ سے باہر نکلنے میں وزیر خارجہ کا سی این این کو دیا گیا انٹر ویو ہرگز مددگار ثابت نہیں ہوگا، اگرچہ اس سے کوئی نقصان بھی نہیں لیکن جگ ہنسائی میں اس نوعیت کی کاروائیاں ضرور مدد فراہم کرتی ہیں، جس سے ہمیں ہر صورت گریز کرنا چاہیے ، نہ کہ گھر واپسی پر پھولوں کے ہار پہن کر اس پر مزید نمک چھڑکا جائے۔ عالمی ایوانوں کی پیچیدہ راہداریوں میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور شیخ رشید جیسے کردار وں کی نہیں بلکہ معاشی و اقتصادی و قانونی ماہرین اور اعداد و شمار کے ساتھ ایک تیار شاطر ٹیم کی ضرورت ہے۔ دیر اب بھی نہیں ہوئی ، حکومت ایف اے ٹی ایف کے معاملے کو سنجیدگی سے لے اور قوم کو اس سر پر لٹکتے عذاب اور عالمی شرمساری سے نکالنے کے لئے عملی اقدامات کرے۔
آیئے سمجھتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کا معاملہ ہے کیا، اندرونی ذرائع سے حاصل کئے گئے ایک پوزیشن پیپر دستاویز کے مطابق، کل ستائیس مطالبات ۲۰۱۸ ابتدا میں کئے گئے تھے، جن میں سے اب کل چھہ باقی رہ گئے ہیں۔ پاکستان کی اب تک کی کارکردگی کسی حد تک نہ صرف اطمینان بخش رہی ہے بلکہ یہ ایک مشکل ٹاسک بھی تھا، تاہم حکومتی توجہ کے فقدان کے باعث یہ معاملہ جو کہ بہت پہلے ختم ہوچکا ہوتا، بدقسمتی سے اب تک اٹکا ہوا ہے۔ بقول شاعر “کیوں ایک دعا میں اٹک کے رہ گیا ہے دل”
فروری ۲۰۲۱ کی پراگریس رپورٹ کے مطابق کُل چھہ بقایہ آئٹمز میں سے تین پر ’’زیادہ تر‘‘ عمل درامد کیا جا چکا ہے ، جبکہ بقایا تین پر جزوی طور پر یا کسی حد تک عمل کیا گیا ہے ، پاکستان کا ماننا ہے کہ باقی مانندہ تین نکات بھی کلی طور پر حل سمجھے جانے چاہیں۔ حکام سمجھتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے یہ نکات بہت حد تک کم اہمیت کے حامل ہیں جس کے لئے فیٹف سے رجوع کرکے مزیدوضاحت طلب کرنے کی ضرورت ہے اور ان سے ایک عوامی سطح پر بیان جاری کرنے کی درخواست بھی زیر غور ہے جس میں اب تک اٹھائے گئی کاوشوں اور مثبت اقدامات کو سراہا جائے۔
شاید بہت سے قارئین کے علم میں یہ بات نہیں ہوگی کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جسے یک نہ شد دو شُد یعنی بیک وقت دو مشکلات کا سامنا ہے ، مطلب یہ کہ ہم سب جانتے ہیں کہ گرے لسٹ میں ٹیرر فنڈنگ اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کرنے کے عملی اقدامات شامل ہیں ، بلکہ ICRG یعنی انٹرنیشنل کنٹری رِسک گائڈ کا بھی سامنا ہے، ایک سے نکلنے بغیر دوسرے چیلنج سے نبٹا نہیں جا سکے گا۔ اس سلسلے میں فیٹف بھی دو آپشنز پر غور کر رہاہے ، جس میں ایک یہ کہ دونوں معاملات کو علیحدہ طور پر حل کیا جائے یا ان دونوں کو ایک ہی میں ضم کرکے ایک بار ہی پاکستان کو موقع دیا جائے کہ وہ تسلی بخش جوابات جمع کروا سکے۔
اِدھر پاکستان کے لئے ابتدائی 27نکات پر جون ۲۰۱۸ سے عمل درامد کرکے اسے چھہ نکات تک محدود کرنا ایک بڑا چیلینج تھا اور یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ باقی کہ چھہ زیر التوا نکات کے لئے دی گئی مہلت کم ہے اور اس بار جون کے مہینے میں ہونے والی میٹنگ میں مزید مہلت کے لئے بھی فیٹف سے درخواست کی جائے گی۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ فیٹف اور آئی سی آر جی کے ضم ہونے کا اس مہلت سے کوئی تعلق نہیں، تاہم ان نکات کی محدود مدت میں تکمیل سے موجودہ وسائل پر شدید دباو اور تناو کے امکانات بڑھ جاتے ہیں جس کے باعث حکام مزید مہلت طلب کرنے پر زیادہ زور دیں گے۔
حاصل کی گئی ایکشن پلان دستاویز کے مطابق فی الحال پاکستان کے لیئے یہ کسی بھی طرح سے مفید نہیں ہو گا کہ وہ جون میں موجودہ کارکردگی کے ساتھ اپنی کارکردگی جمع کروائے کیونکہ شاید یہ کم مدت کی وجہ سے ایک بار پھرتسلی بخش قرار نہ پاسکے گی، پاکستان کے ایک پوزیشن پیپر نے اس سلسلے میں جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔
۱۔ اس امر کو تسلیم کیا جائے گا کہ ایکشن پلان کے آئیٹمز کی بڑی حد تک تکمیل کی گئی ہے جس میں آن سائٹ وزٹ کی اجازت بھی شامل ہے ، جس نے جون میں ہونے والے اسٹریٹجک ایکشن پلان کا جائزہ لینا ہے ۔
۲۔ اگر جون میں آئی سی آرجی یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ رپورٹ میں اب بھی کوئی سُقم ہے تو ان سے یہ وضاحت طلب کی جائے گی کہ اس سلسلے میں مزید کیا عمل درامد درکار ہے جو کہ جون تک ایکشن پلان کی تکمیل کے لئے تسلی بخش ہو۔
۳۔ جہاں تک POPR یعنی پوسٹ آبزرویشن پیریڈ رپورٹ کا تعلق ہے اس کی میعاد کو سال رواں اکتوبر تک موخر کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ جس سے پاکستان پر موجودہ دباو میں کسی حد تک کمی ہوگی اور بقیہ نکات کے جواب کے لئے سہولت مہیا ہو جائے گی۔
۴۔ ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ایک واضح اور مضبوط عوامی پیغا م کی درخواست کی جائے جس میں پاکستان کی جانب سے حاصل کی گئی اب تک کی کامیاب کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا جائے ۔
قارئین، آپ بس آخر میں اتنا سمجھ لیجئے کہ پاکستان کو شروع میں کُل ستائیس نکات کا سامنا تھا جس میں سے چوبیس تسلی بخش حد تک پایہ تکمیل تک پہنچا دیئے گئے ہیں ، چھہ عدد اب بھی زیر التوا ہیں، ان میں سے بھی تین عدد پاکستان کے مطابق بڑی حد تک مکمل ہیں اور باقی کے تین پر بھی کام ہو رہا ہے لیکن مزید مہلت کی ضرورت ہےاور پاکستان کی خواہش ہے کہ ایف اے ٹی ایف کم از کم پاکستان کی اب تک کی حاصل کردہ کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا برملا اظہار کرے جس سے حکومت اپنی عوام، عالمی برادری اور میڈیا کے سامنے کچھ سرخرو ہو سکے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان بلیک لسٹ میں جائے گا، تو ممکنہ جواب ہے کہ ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا، پھر دوسرا یہ سوال کہ کیا پاکستان گرے لسٹ سے باہر نکل رہا ہے ، اس کا بھی فی الحال کوئی امکان نہیں ، کیونکہ کچھ نکات اب بھی نا مکمل ہیں اور مزید مہلت ملنے کے امکان موجود ہیں۔ یہ تمام تکنیکی نوعیت کے معاملات ہیں جس میں کسی کی فتح اور شکست کی بات نہیں بلکہ کچھ مشکلات ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے
اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب معاملات سنجیدہ حکومتی اقدات اور فوری توجہ چاہتے ہیں ، کیا ہماری موجودہ حکومت ان معاملات کو اسی سنجیدگی اور مہارت سے سلجھانے میں مصروف ہے جو اس حساس ایشو کا متقاضی ہےیا ان کی ترجیحات اب بھی وہی پرانی روائیتی انتقامی محلاتی سیاسی سازشیں، میڈیا میں ترجمانوں کے ذریعے مخالفین سے جنگ، کابینہ میں اپنی ناکامی کا ملبہ چھپانے کے لئے وزارتوں کی اکھاڑ پچھاڑ اور ہر آئے دن خطابات کے ذریعے عوام کو ایک نیا منجن بیچنے والی حرکات و سکنات شامل ہیں۔ آج کی اس تحریر کو بھی ایک ایسا الارم کلاک سمجھ لیں جو کہ ان سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لئے لکھی گئی ہے کہ اب بھی جاگ جائیں کہیں تاریخ نویس ہمارے عہد کے بارے یہ نہ کہتے پائے جائیں کہ ۔” نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں”