پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے سفارتی محاذ پر مزید سرگرم ہونے کی ضرورت

پاکستان کو اگلے چار ہفتوں کے دوران فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے حمایت کے حصول اور مطلوبہ تعداد میں ووٹس حاصل کرنے کے لیے سفارتی محاذ پر سرگرم ہونے کے علاوہ بہت سے تکنیکی امور پر بھی کام کرنا ہو گا۔

اگلے ماہ کی 16 سے 21 جون تک امریکی ریاست اورلینڈو کے شہر فلوریڈا میں ہونے والا ایف اے ٹی ایف کا پلانری اینڈ ورکنگ گروپ اجلاس اس لیے نہایت اہم ہے کیوں یہ پاکستان کے لیے گرے لسٹ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستان بلیک لسٹ میں شامل ہو جائے گا جس کے پاکستان کے لیے اقتصادی تناظر میں سنگین نوعیت کے اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فلوریڈا میں ہونے والا اجلاس دراصل پاکستان کے مستقبل کی راہ متعین کرے گا جس کے بارے میں حتمی اعلان رواں برس اکتوبر میں پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں کیا جائے گا۔



ایف اے ٹی ایف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان اب قوام متحدہ کی قراردادوں پر مکمل طور پر عمل کر رہا ہے جس نے گزشتہ دو ماہ کے دوران ایف اے ٹی ایف کی شرائط پورا کرنے کی غرض سے ریگولیٹر اور مانیٹرنگ کے تناظر میں بھرپور انتظامات کیے ہیں اور اب اس کا قانونی نظام بھی بہترین ہے اور اس وقت صرف انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں کچھ ترامیم کرنے کی ضرورت ہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ترامیم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اینڈ ریویو میں زیرالتوا ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے 15 سے 16 ووٹ درکار ہیں جب کہ بلیک لسٹ میں شامل ہونے سے بچنے کے لیے کم از کم تین ووٹ چاہئیں ہوں گے۔

یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ایف اے ٹی ایف میں اس وقت 36 ملکوں اور دو علاقائی تنظیموں کے پاس ووٹ دینے کا اختیار ہے جو دنیا کے بڑے مالیاتی اداروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔