پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی تجاویز پر عملدرآمد کے لیے سرگرم

گرے سے بلیک لسٹ میں شامل ہونے کا خطرہ، پاکستان کا دہشت گردوں کی فنانسنگ روکنا وقت کی اہم ضرورت

دہشت گردوں کی فنانسنگ کی روم تھام کے ذمہ دار عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں نام ڈالے جانے سے بچنے کے لیے پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اس نے دہشت گرد گروہوں کی فنانسنگ سے متعلق تمام 15 شرائط پر من وعن عمل کیا ہے جن میں وفاقی اور صوبائی سطح پر دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان ہم آہنگی بھی شامل ہے۔

ایک اور مطالبہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان عسکریت پسند تنظیموں کی درجہ بندی پر دوبارہ غور کرے جس پر عملدرآمد کے لیے پاکستان نے حال ہی میں بہت سی عسکریت پسند تنظیموں کو ’’لو رسک‘‘  سے نکال کر ’’ ہائی رسک‘‘  کی درجہ بندی میں شامل کر لیا ہے۔ اس مطالبے پر عمل درآمد کے لیے حکومت نے کالعدم تنظیموں کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ شروع کر دی ہے اور ان کے انتظامی، قانونی اور مالیاتی معاملات کو تفتیش کے دائرے میں لانے کا عمل بھی جاری ہے۔



فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اس سے قبل بھی پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں پر مطمئن نہیں تھی جن میں ان تنظیموں کو ’’لو رسک‘‘ اور ’’میڈیم رسک‘‘ کی درجہ بندیاں دی گئی تھیں۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے کہا تھا، پاکستان نے مبینہ دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت اور اس سے پیدا ہونے والے خطرات کا درست طور پر ادراک نہیں کیا۔ ان دہشت گرد گروہوں میں داعش، القاعدہ، جماعت الدعوہ،  لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور طالبان وغیرہ شامل ہیں۔

دریں اثناء، پاکستان کو یہ بھی دکھانا پڑے گا کہ حکام دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے منتقل ہونے والی رقوم کی شناخت کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر قانونی کارروائی بھی کر رہے ہیں یا نہیں؟

پاکستان کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ملک میں دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے ایک مربوط نظام موجود ہے اور اس کے لیے عدلیہ اور پراسیکیوٹرز کی استعدادکار میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں، سٹیٹ بنک آف پاکستان کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مالیاتی اداروں کو لاحق خطرات کی نشاندہی کے لیے جامع پروگرام  شروع کرے۔

واضح رہے کہ سٹیٹ بنک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو مئی 2019 میں یہ بھی بتانا ہے کہ آیا ان خطرات پر قابو پانے کے لیے بنائی گئی پالیسی پر مالیاتی اداروں نے عمل کیا ہے یا نہیں؟

پاکستان کو یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ پالیسی پر عملدرآمد نہ کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے یا نہیں۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے، پاکستان کو یہ ممکن بنانا ہے کہ حکام ہر صورت میں پیسہ منتقل کرنے والے عناصر کی شناخت اور پیسے کی غیر قانونی منتقلی پر پابندیاں عائد کریں۔



اس حوالے سے نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی پر قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے لیے جامع پالیسی کی تشکیل کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جس کے تحت وہ دہشت گرد گروہوں اور ان کے کارکنوں کے خلاف مالیاتی معاملات میں تفتیش کا آغاز کر سکیں گے اور یہ ممکن بنائیں گے کہ پالیسی پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کو مبینہ دہشت گردوں اور ان کے ساتھیوں  کے خلاف مربوط مالیاتی پابندیوں کے ثبوت بھی فراہم کرنا ہوں گے جن میں  پیسوں کا بطور چندہ اکٹھا کرنا اور انہیں منتقل کرنا، اثاثوں کی جانچ  اور انہیں منجمد کرنا اور دہشت گردوں کو فنڈز اور مالیاتی خدمات تک رسائی سے روکنا شامل ہے۔

پاکستان کو مفرور دہشت گردوں یا تنظیموں کو اپنے وسائل اور ان کے استعمال پر مکمل پابندی بھی عائد کرنی ہے۔