مولانا کی لاڑکانہ جلسے میں عدم شرکت، دراڑوں کی خبریں چائے کی پیالی میں طوفان ثابت ہوئیں

مولانا کی لاڑکانہ جلسے میں عدم شرکت، دراڑوں کی خبریں چائے کی پیالی میں طوفان ثابت ہوئیں
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پیپلز پارٹی کے ہونے والے جلسے میں شرکت کے لئے نہیں جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق انہیں بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش میں ہونے والے جلسے کی با ضابطہ دعوت نہیں دی۔ تاہم،سابق صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی جانب سے چند روز قبل مولانا کو فون کر کے جلسے کی دعوت دی گئی تھی۔

پیپلز پارٹی کے قریبی ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ مولانا کی لاڑکانہ کے جلسے میں شرکت نہ کرنے کی وجہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی PDM میں اختلافات نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) لاڑکانہ کی مقامی قیادت کا پیپلز پارٹی سے اختلاف ہے۔ لاڑکانہ سے جمعیت علمائے اسلام  (ف) کے رہنما راشد سومرو نے بلاول بھٹو کے خلاف الیکشن لڑا۔ ان کے والد خالد سومرو مرحوم بھی بینظیربھٹو کے خلاف لاڑکانہ ہی سے الیکشن لڑ چکے ہیں۔

یاد رہے کہ پیپلز پارٹی اس وقت بھی مولانا کے ساتھ رابطے میں ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کی شرکت تاحال مکمل طور پر خارج از امکان نہیں۔ تاہم، پیپلز پارٹی کے قریبی ذرائع کے مطابق یہ تنازع گزشتہ ماہ شروع ہوا تھا۔

جمعیت کی مقامی قیادت سندھ حکومت سے کچھ مراعات اور سہولیات کا مطالبہ کر تی رہی ہے۔ لاڑکانہ میںجمعیتعلمائے اسلام کے رہنما راشد سومرو نے اس ضمن میں بلاول بھٹو سے ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ طارق منظور چانڈیو کے تبادلے سمیت رقم کا مطالبہ بھی کیا اور یہ مطالبات پورے نہ کرنے پر انہوں نے بلاول بھٹو کو محترمہ بینظیر کے مزار کے سامنے دھرنا دینے کی بھی دھمکی دی تھی۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ بلاول بھٹو زردادی نے مطالبہ تسلیم نہ کیا جس پر راشد سومرو نے بلاول پر پریشر بڑھانے کے لئے انہیں دھمکی دی کہ مولانا فضل الرحمٰن کو گڑھی خدا بخش آنے سے روکا جائے گا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اس ضمن میں گڑھی خدا بخش کے جلسے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہےلہٰذا مولانا کی غیر موجودگی میںپارٹی کی دوسرے درجے کی لیڈرشپ گڑھی خدا بخش جلسے میں شرکت کرے گی۔

دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام کی مقامی قیادت نے ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ جے یو آئی ذرائع کےمطابق یہ تنازع پہلے ہی حل ہو چکا تھا۔ جمعیت علمائے اسلام لاڑکانہ کے رہنما علامہ ناصر سومرو نے کہا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام نے کسی افسر کی تقرری کی سفارش نہیں کی۔امیر جےیوآئی لاڑکانہ نے کہا کہ چند روز قبل جےیوآئی لاڑکانہ اور ڈپٹی کمشنر کے درمیان تنازع پیدا ہوا تھا۔ ڈی سی لاڑکانہ طارق منظور چانڈیو نے جےیوآئی کے پینا فلیکسز اور پرچم شہر بھر سے اتروادیے تھے۔ پینا فلیکسز اتارنے کے معاملہ پر جےیوآئی لاڑکانہ نے ڈی سی کی معطلی کا مطالبہ کیا تھا۔ جس پر جےیوآئی نے لاڑکانہ میں بھرپور مظاہرہ کی بھی کال دی تھی۔

علامہ ناصر سومرو نے کہا کہ جےیوآئی کی احتجاجی کال کے بعد ڈی سی لاڑکانہ اپنے والد کے ہمراہ جےیوآئی کے آفس آکر معذرت کی۔ ڈی سی کی معذرت کے بعد جےیوآئی لاڑکانہ نے معاملے کو ختم کردیا۔

علامہ ناصر سومرو نے کہا ہے کہ بےنظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر چند چینلز اسطرح کی خبریں پھیلاکر پی ڈی ایم کے اتحاد کو کمزور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں،  بےنظیر بھٹو شہید کی برسی میں جےیوآئی کا اعلیٰ سطحی وفد شریک ہوگا اور جلسے میں بھرپور شرکت کرے گا۔

تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاملہ پہلے ہی حل ہو چکا ہے تو مولانا جلسے میں شرکت کیوں نہیں کر رہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ مقامی سیاست میں جے یوآئی اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی مخالف ہیں۔ ہے اس لئے پارٹی کا خیال تھا کہ مولانا مخالف جماعت کے جلسے میں گئے تو پیپلز پارٹی کا قد بڑھ جائے گا۔ اسی لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس ضمن میں جے یوآئی کی مقامی قیادت نے مولانا سے جلسے میں شرکت نہ کرنے کی استدعا کی۔ خود بلاول بھٹو زرداری نے بھی اسی وجہ سے مولانا کی شرکت یقینی بنانے کے لئے زیادہ جوش و خروش نہیں دکھایا۔ انہوں نے خود دعوت دینے کے بجائے یہ معاملہ آصف علی زرداری پر چھوڑ دیا۔ مولانا کو جب اس اندرونی کہانی کا پتہ چلا تو انہوں نے اسے اپنی توہین سمجھتے ہوئے جلسے میں نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ میڈیا میں اسے PDM میں دراڑ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لیکن یہ قومی سطح پر اتحاد کے لئے خطرہ بننے جیسی اہمیت نہیں رکھتا۔ مولانا صاحب اب بھی جلسے میں شرکت کر سکتے ہیں اور استعفوں کا فیصلہ بھی 2 جنوری کے PDM سربراہ اجلاس میں فیصلہ ہو جائے گا۔ اس جلسے کا اتحاد کے فیصلے پر اثر انداز ہونا ضروری نہیں۔