اس حکومت، کہ جس کا خاتمہ 1831 میں رنجیت سنگھ کی فوج اور مقامی مسلمانوں کے تعاون سے ہوا، کے بارے میں جامع علمی تجزیہ پڑھنے کے لئے ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب المیہٴ تاریخ میں چھپنے والے مضمون، جہاد تحریک، کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ آج سے دو سو سال پہلے کی بات ہے کہ جب یورپ میں انجن ایجاد ہو چکا تھا اور سائنسی انقلاب اڑان بھر چکا تھا۔ اب تک دنیا میں تو کئی تبدیلیاں آ چکی ہیں مگر ہمارے ہاں کے سیاسی وہابی ابھی تک وہیں کھڑے ہیں اور ممکن ہے کہ دو سو سال بعد بھی ادھر ہی کھڑے ہوں۔[
مولانا محبوب دہلوی کی آپ بیتی کے متن کا ترجمہ( از مولانا خوشتر نورانی)
اس وقت پشاور کے اطراف میں سید احمد مجاہدین کے امیر تھے اور ان کے ساتھ مولانا ابو عمر اسماعیل بن عبد الغنی رحمہ اللہ ان کے قافلے کے سالار اور مولانا عبدالحئی رحمہ اللہ منصوبہ بندی کے مشیر تھے اور ہندوستان، سندھ اور خراسان کے کثیر علما ان کے ساتھ تھے۔ میں بھی کفار کے خلاف جہاد کی نیت سے چار سو لوگوں کے ساتھ 17 شعبان 1242 ہجری کو دہلی سے ان کے پاس جانے کے لئے نکلا۔ رمضان میں ہم بہاول پور میں رہے اور عید الاضحیٰ کی نماز ہم نے کنڈہ میں پڑھی، یہ جگہ پشاور کے اطراف میں ہے، پھر ہم ماہ صفر کے آخر 1243 ہجری کو مجاہدین کے سردار اور ان کے آقا کے پاس پہنچے۔ مولانا عبدالحئی سے، جو ان میں بحرالعلوم ہیں، ہم نے ملاقات کی۔ اس وقت شاہ اسماعیل رحمہ الله پکھلی میں تھے اور ان کے ساتھ وہاں محمد مقیم رام پوری اور ان کے ساتھی بھی تھے۔ محمد مقیم زخمی ہو کر وہاں سے لوٹ آ ئے جب کہ شاہ اسماعیل وہیں مقیم رہے۔ اس وقت یوسف زئی میں پنجتار کے علاقے میں ہم مجاہدین کے سردار ( سید احمد بریلوی) کے ساتھ تھے اور ان علاقوں کا رئیس فتح خان یوسف زئی گویا سید احمد رحمہ الله تعالیٰ کے وزیر کی حیثیت سے تھا۔
رؤسائے پشاور یار محمد خان درانی اور اس کے بھائی سید صاحب کے مخالف تھے۔ سید صاحب ان لوگوں سے مصالحت کی بجائے مقاتلہ (جنگ) کرنا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کی ان دونوں جماعتوں کے درمیان مجھے فتنے کا خوف محسوس ہوا۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کاموں کی بنیاد مشاورت کی بجائے غیبی الہام پر ہے جب کہ شرعی طور پر جہاد کے واسطے مسلمانوں کا طریقہ یہ رہا ہے کہ مشورے پر اس کا دار و مدار ہو۔ یہ دیکھ کر میں سید صاحب سے، جو پنجتار میں تھے، وطن واپسی کے لئے رخصت ہوا مگر بیمار ہونے کی وجہ سے عبد الحمید خان ابن سید عبد الرحمٰن خان شہید کابلی کے پاس مجھے تین ماہ پشاور میں رکنا پڑا۔ پھر میں ان لوگوں سے بھی رخصت ہوا اور 9 جمادی الاخریٰ 1243 ہجری بروز سنیچر پشاور سے دہلی کے لئے روانہ ہوا۔[1]
4 شعبان بروز بدھ ہم نریلہ پہنچے اور 5 شعبان کو ہم دہلی (شاہ جہان آباد) میں داخل ہوئے، اس حال میں کہ راقم السطور اس سفر میں بیمار ہو گیا تھا۔
جب ہم جمعہ کے دن مولانا ابو سلیمان اسحاق فاروقی سلمہ الله کی درس گاہ میں گئے جو اعلیٰ ترین اخلاق کے حامل ہیں، تو ہم نے بعض لوگوں کے چہروں پر اپنے لئے ناگواری اور نفرت دیکھی، کیوں کہ سید احمد نے انہیں خط لکھ دیا تھا کہ یہ لوگ ہماری مخالفت کر کے ہماری اجازت کے بغیر اپنے وطن لوٹ گئے ہیں۔ ہم نے سمجھ لیا کہ سید احمد کا مذکورہ خط بھی ان کی دوسری تدابیر کا حصہ ہے تو ہم کچھ عرصے کے لئے خاموش ہو گئے۔ یہاں تک کہ بعض مفسدوں کے جواب میں مجاہدین کے قافلہ سالار شاہ اسماعیل دہلوی نے پنجتار کے اطراف سے جہان آباد کے لوگوں کو خط لکھا جس میں اس بات کی وضاحت کی تھی کہ تمام مسلمانوں پر سید احمد رحمہ الله کی اطاعت ثابت ہے اور جو ملک میں ان کی بیعتِ امامت سے انکار کرے اس کا قتل جائز ہے۔ تو جب ان مفسدین نے اعلان کرنے کے لئے اس خط کی نقل کو مختلف علاقوں میں بھیجا اور دہلی میں اعلان کر دیا کہ جو لوگ علاقہ یوسف زئی میں مقیم امیر المومنین سید احمد سے (مخالفت کرتے ہوئے) لوٹے ہیں، جہاں ملیں ان کی تذلیل اور ان کا قتل جائز ہے۔ ہم نے مفسدین کو زبانی کہلا بھیجا اور تحریری طور پر رد میں ایک رسالہ لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے:
”اے پرہیزگارو! جان لو کہ وہ امام جس کے باغی کو قتل کرنا جائز ہے، یہ وہ امام ہے جو امیرالمومنین ہو اور ارباب حل و عقد نے اس کی نصرت و حمایت پر اجماع کیا ہو۔ اور شریعت کے اوامر و نواہی میں اس کی اطاعت کا اقرار کیا ہو۔ اگر بلاد اسلامیہ میں اس کی حکومت قائم ہو اور کوئی اس جیسا اس کے مقابل نہ ہو اور وہ مجتہد ہو، خواہ قریشی ہو یا نہ ہو۔ اور اس کی لیاقت کی شرطوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ کامل مدبر اور بہادر ہو۔ یہاں ارباب حل و عقد سے مراد جمہور علمائے اسلام اور عسکری فوجوں کے امراء ہیں۔ ان میں اکے دکے کی مخالفت کا اعتبار نہیں۔
ان باتوں کو دیکھتے ہوئے سید احمد رحمہ الله ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کا باغی واجب القتل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اہل سنت و جماعت ان علما کی تذلیل و گمراہی کا حکم دیتے جو امام حسین ابن علی رضی الله عنہ سے موافقت نہیں رکھتے۔
یہ حق ہے کہ سید احمد نے الله کے راستے میں جہاد کا ارادہ کیا اور کچھ نیک بختوں نے اس اچھے ارادے میں ان کی پیروی کی اور وہ کافروں سے لڑے، کافروں کو مارا اور خود بھی الله کی راہ میں مارے گئے اور جب سید صاحب نے اس بات کا اظہار کیا کہ میں امیر المومنین اور تمام مسلمانوں کا خلیفہ ہوں تو آپ کے ساتھ شامل بعض مجاہدین متنفر ہوئے اور دوسرے بعض اظہار کے بعد بھی آپ کے ساتھ رہے۔ لیکن اس علاقے کے باشندے جو کہ مسلمان ہیں، سید صاحب کے اس اعلان کے بعد آپ سے لڑے۔ ان کو ڈر ہوا کہ ان کا ملک ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائے اور سید احمد کا کہیں ان پر تسلط نہ ہو جائے۔ لہٰذا انہوں نے سید صاحب سے قتال کیا اور جناب سید نے اعلان کیا کہ ہم سے لڑنے والے منافق ہیں، ان کا خون اور ان کا مال ہمارے لئے حلال ہے۔ لہٰذا سید صاحب کے لوگوں نے مقتولین کے اموال میں مالِ غنیمت کی طرح تصرف کیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ سید احمد خلافت کے لائق نہیں۔ اس لئے سب نے بیعت توڑ دی اور کہا کہ ہم کسی امر میں تمہاری پیروی نہیں کریں گے اور انہوں نے انہیں اپنے علاقے سے نکال دیا تو سید احمد رائے بریلوی اپنے رفقاء کے ساتھ ان کے علاقے سے نکل گئے اور کہا کہ یہ لوگ مباح الدم ہیں اور اگر ان پر قدرت ہو تو انہیں قتل کر کے ان کا مال لے لینا جائز ہے۔ پھر کچھ دوسرے لوگ کفار کے خلاف جہاد کرنے کے لئے سید صاحب کے پیچھے ہو لیے، اس خلافت و امامت کی نیت سے نہیں جو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے لئے تھی۔ اور اگر کوئی اس کا قائل ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ دلیل پیش کرے۔
خلاصہ یہ کہ سید احمد مرحوم کو یہ حق تھا کہ وہ پوری دنیا کے فوجی امیروں اور علمائے اسلام پر اس ارادے کے اظہار کے ساتھ اپنے علم و اجتہاد کو پیش کرتے۔ پھر اگر اس صریح ارادے پر جمہور علمائے عصر اور فوجی حکام، جن میں سلطان محمود رومی بھی شامل ہیں جو سید احمد ہندی کے ظہور کے پہلے سے شرعی جہاد اور کفار سے جنگ کر رہے ہیں، ان کا تعاون کرتے اور ان سے بیعت کرتے۔ تب ایسی صورت میں مسلمانوں پر ان کی اطاعت واجب ہو جاتی اور ہمارے لئے یہ کہنا صحیح ہو جاتا کہ ان کے باغی مباح الدم یا واجب القتل ہیں، ورنہ نہیں“۔
سید احمد ہندی محرم 1243 ہجری میں قصبہ پنجتار میں مذکورہ ارادے (خلافت و امامت) کے ساتھ مقیم تھے جو یاغستان یوسف زئی میں واقع ہے۔ انہوں نے فیض الله خاں ارباب کو پشاور سے اپنے پاس طلب کیا اور انہیں اس سلسلے میں خط لکھا۔ فیض الله خاں کی طرف سے امیر عالم خاں کے ساتھ، جو سلطان محمد خاں رئیس پشاور کے وکیل ہیں، جواب آیا۔ ان کے ساتھ وہ خطوط بھی تھے جو سید صاحب کی طرف سے لکھے گئے تھے تو سید احمد رحمہ الله نے اپنے طویل مکتوب میں اس عبارت کے ساتھ فیض الله خان کو خط لکھا۔ یہ خط اسی ماہ محرم کی ساتویں تاریخ کو لکھا گیا ہے:
”آپ کے محبت نامے کے آخر میں جو آپ کے محبت آمیز قلم سے حافظ شیرازی کا یہ شعر مرقوم ہے:
مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز
ورنہ در محفل رنداں خبرے نیست کہ نیست
فکر عالی پر واضح ہو کہ اگر اندرونی راز سے مراد پشاور کے سلسلے میں ہندوستان کے مجاہدین کی راہ کو منافقین کے خس و خاشاک اور معاندین و اہل شقاق کے سنگ ریزوں سے پاک کرنے کے تئیں ہمارا عزم و ارادہ ہے تو یہ بات اصلاً اسرارِ مخفیہ میں سے نہیں ہے، بلکہ میر عالم خاں اخوند زادہ وکیل سردار سلطان محمد خاں کے روبرو اس بات کو میں نے با آواز بلند بیان کر دیا ہے اور اس باب کا کوئی نکتہ پوشیدہ نہیں ہے اور اس مقدمے کے اشارات تحریری جواب میں بھی موجود ہیں۔ البتہ میں نے وقت کا تعین نہیں کیا ہے کہ اس مہم کو میں کس وقت سرانجام دوں گا اور کس وقت اس عبادت میں کوشش کروں گا، کیوں کہ ہر عمل کا سر رشتہ قادر مختار کے ہاتھوں میں ہے۔ میں اپنا اجمالی عزم رکھتا ہوں اور اس کی تکمیل کے لئے بارگاہ واہب العطایا سے امید وار ہوں۔ لہٰذا اس امر ظاہر و باہر کی خبر کا آپ تک پہنچنا بالکل مشکل نہیں ہے۔
نہاں کے ماند آں رازے کزو سازند محفل ہا
اور اگر اندرونی حال سے مراد ہم فقیروں کی بے مائیگی ہے کہ تمام تر بے سر و سامانی اور ضعف و ناتوانی کے باوجود چالاک ارباب حشمت و ثروت کے مقابلے میں ہوں اور اصحاب عزت و تمکنت کی مخالفت میں بے باک ہوں، تو جاننا چاہیے کہ ہر چند ہم فقرا نہایت بے سر و ساماں ہیں، ہم سب بادشاہوں کے بادشاہ کے بندے ہیں۔ اس کے وعدے پر خوش و خرم ہیں اور اس کی اطاعت میں کامیاب و کامران ہیں اور آیت ہدایت: كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةً بِاِذْنِ اللّٰهِ پر کلی ایمان رکھتے ہیں اور وَ مَنْ یَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ پر فطری توکل رکھتے ہیں۔ مخالفین کی تعداد اگرچہ ہزار ہا ہزار ہو اور معاندین کی قوت چاہے جتنی بڑھ جائے، اپنے مولیٰ کی عظمت و جلالت کے سامنے اسے خس و خاشاک بھی نہیں سمجھتا اور ناپاک مکھی کے برابر بھی اسے اہمیت نہیں دیتا۔
الحاصل بندے کو اطاعت سے سر و کار ہے، اسے فتح و شکست سے کوئی مطلب نہیں، سر میں اہلِ دین کی نصرت و حمایت کا سودا ہے اور سرکشوں کی تذلیل پیشِ نظر ہے۔ اپنے ترکش کا ہر تیر اس معرکے میں میں چلاؤں گا اور اس بساط پر دل کے اندر موجود تدبیر کے ہر پیادے کو ڈال دوں گا۔ نفع و نصرت خواہ میرے حصے میں آ ئے، خواہ کسی اور کے حصے میں، میرے سر تاجِ شجاعت سجے یا خلعتِ شہادت سے شاد کام کیا جاؤں۔
فقط واالسلام مع الاکرام
محررہ: 7 محرم 1243 ہجری“
اس وقت میں ایک چھوٹی سی جماعت کے ساتھ پشاور کے علاقے اسپین تنک میں موجود تھا۔اس سے پہلے میں سید مرحوم کو خط لکھ چکا تھا کہ روٴسا میں جو اختلافات ہیں ان کو دور کریں یا جلد پشاور کے اطراف میں تشریف لائیں۔ جس کے جواب میں انہوں نے مجھے لکھا کہ لوگوں کی اصلاح کروں اور علاقہٴ آفریدہ کے لوگوں سے (ان کی امامت و خلافت پر) بیعت لوں۔ تو میں نے ان سے بیعت کا عہد لیا اور میرے ان کے درمیان جو طے پایا، میں نے اسے لکھ لیا اور اس معاہدہٴ بیعت کی نقل سید صاحب کو بھیج دی۔ میں نے انہیں لکھ دیا تھا کہ وہ اس خبر کو راز میں رکھیں کیوں کہ سید صاحب کے پاس سید شاہ نام کا جو شخص تھا، اس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ رئیس پشاور کا جاسوس ہے۔ جب کہ فیض الله خاں ارباب اندر سے ہماری موافقت میں تھے۔ انہوں نے بھی مذکورہ بالا شعر سے اپنے خط میں سید صاحب کو اشارہ کر دیا تھا کہ علاقہٴ آفریدہ کے لوگوں سے آپ کی بیعت لینے کا راز روٴسائے پشاور پر کھل گیا ہے۔ مگر سید احمد نے اس اشارے کو نہیں سمجھا بلکہ مجھے یہ بھی لکھ دیا کہ میں نے روٴسائے پشاور کے وکیل کو مایوس کر دیا ہے اس لئے وہ آپ کےخلاف سازش میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، اور اس خط کی نقل کو مجھے ارسال کر دیا جس کو یار محمد خان کے بھائی سلطان محمد خان نے پشاور پہنچایا تھا اور اس خط کو بھی نقل کر لیا جس کو میں نے لکھا تھا۔
تو جب روٴسا پر یہ راز کھلا تو انہوں نے ہم سے مقاتلہ (جنگ) کرنے کے لئے علاقہ اذاخیل میں فوج جمع کر لی۔ فیض الله خاں ارباب ہمارے معاملے میں متحیر تھے، جب کہ رؤسائے سرحد ہم لوگوں سے حد درجہ متنفر تھے اور جناب سید اپنے غلط منصوبے کے ساتھ پنجتار میں اقامت گزیں تھے۔ وہ نہ تو پشاور کی طرف پیشقدمی کر رہے تھے نہ ہی ہمارے دشمنوں کو روکنے کی طاقت رکھتے تھے، بلکہ ہمیں لکھ رہے تھے کہ پوری حفاظت کے ساتھ ہمارے پاس آ جاؤ۔ یہاں تک کہ دشمنوں نے چاروں طرف سے ہمارا راستہ روک لیا۔ اس حالت میں فیض الله خاں ارباب رئیس پشاور کی طرف سے پیغام لے کر میرے پاس آئے اور کہا کہ:
”یار محمد خاں کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ملک کو چھوڑ کر تم لوگ اپنے وطن (ہندوستان) لوٹ جاؤ، ورنہ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ چوں کہ اس جنگ کے لئے یار محمد خان نے مجھے متعین کیا ہے، اس لئے اے سید باشا! میں تمہارے پاس آیا ہوں کہ میں کیا کروں؟“
جواباً میں نے کہا:
”اگر تم میدانِ محشر میں سرخرو ہونا چاہتے ہو تو مجاہدین کے راستے کو مت روکو اور اگر روزِ قیامت سیاہ رو ہونا چاہتے ہو تو پھر غیر الله کی طرف سے تمہیں جس بات کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ کرو۔ ہمیں تو بہر صورت دو میں سے ایک نیکی حاصل ہو گی“۔
یہ سن کر فیض الله خاں میرے قدموں پر گر گیا اور کہا:
”میری جان آپ پر فدا ہو۔ آپ سادات کے لئے ہم جان کی بازی لگا دیں گے۔ آپ پیدل دریائے نوشہرہ کے پاس چلے جائیے اور کشتیوں کا انتظار مت کیجئے۔ خدا کی قسم میں اندرونی طور پر آپ کے ہم نواؤں میں سے ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جہاد ہو، ورنہ میں آپ کو سید احمد سے ملنے کے لئے ہرگز نہیں چھوڑتا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ سید احمد آپ کی رائے کو نہیں مانیں گے۔ نتیجے کے طور پر بغیر کسی جہاد کے آپ اپنے وطن (ہندوستان) لوٹ جائیں گے“۔
خلاصہ یہ کہ پھر ہم سید احمد کے پاس پنجتار پہنچے، جب کہ جناب سید نے مولانا اسماعیل کو پکھلی دمتوڑ کے علاقے میں بھیج دیا تھا۔ یہ کام بھی انہوں نے سید شاہ کی آرزو کے عین مطابق اپنے غلط منصوبے کے تحت خلافِ مشورہ کیا تھا۔ تو میں نے سید صاحب کی مجلس کا جب یہ حال دیکھا، سمجھ گیا کہ یہ کام ان کے بس کا نہیں اور مجھ کو یقین ہو گیا کہ اختلافات کے جھگڑوں میں علما مارے جائیں گے اور جاہلوں کا مذہب سید صاحب کے کشوفات اور معارف ہوں گے جو کہ بابِ جہادِ شرعی میں جمہور علما کے بیان کردہ طریقے کے خلاف ہوں گے۔ میں نے خلوت میں سید صاحب سے کہا:
”اے میرے سید! جہاد کا مدار مشورے پر ہے اور جہاد امورِ شرعیہ میں ایک بڑا رکن ہے۔ لڑائی کا مدار دھوکے میں ڈالنے پر ہے۔ یہاں آپ خود دھوکہ کھا رہے ہیں، کسی دوسرے کو دھوکے میں نہیں ڈال رہے ہیں۔ میرے نزدیک پہلا حیلہ یہ ہے کہ آپ اس مقام میں اقامت فرمائیں۔ یہاں کے باشندوں میں سے کسی ایک کی بھی مخالفت نہ کریں۔ اور جو آپ چاہتے ہیں اس کا اظہار نہ کریں۔ جب تک کہ آپ کے پاس ہندوستان سے بارہ ہزار مجاہد نہ آ جائیں۔ جب غریب الوطن، صبر کرنے والے، بارہ ہزار مجاہد آ جائیں تو آپ ان مقامات پر حکومت کریں اور اعلان کر دیں کہ اپنی جان و مال سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کافروں سے جہاد کرو۔ آپ یہ نہ کہیں کہ میں امیر المومنین اور زمین پر الله کا خلیفہ ہوں اور میری اطاعت تمام لوگوں پر واجب ہے، کیوں کہ یہ نرالی بات رئیسوں اور سمجھ داروں کو وحشت میں ڈالتی ہے“۔
میری اس بات کو سن کر سید صاحب نے کہا:
”جس کام کو میں نے سنوارا ہے، اس کو تم بگاڑ رہے ہو، تمہاری اطاعت خاموشی کے ساتھ سننے کی ہونی چاہیے۔ ایسی خاموشی جیسی اس پہاڑ کی ہے جو میرے سامنے کھڑا ہے“۔
میں نے کہا:
”یہ بات مجھ جیسے شخص سے نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ ان امور میں مسلمانوں کو صحیح مشورہ نہ دینا میرے نزدیک حرام ہے۔ اب جبکہ آپ مجھے خاموش رکھنا چاہتے ہیں اور میں خاموش نہیں رہ سکتا تو اصلاح فی ما بین المسلمین کی وجہ سے مجھ پر لازم ہے کہ آپ سے الگ ہو جاؤں اور لوگوں کو اس اختلاف کی خبر نہ ہو، اور آپ مجھے ہندوستان جانے کی اجازت دیں۔ آپ روٴسائے ہند کو میرے ساتھ خط لکھ کر دیں تاکہ میں انہیں آپ کی اطاعت کی ترغیب دوں۔ اور اگر وہ لوگ جان گئے کہ میں مکدر خاطر ہو کر آپ کے پاس سے لوٹ آیا ہوں تو عقلا آپ سے نفرت کرنے لگیں گے اور جھلا مجھ پر تکبر کریں گے تو یہ میرے، آپ کے اور لوگوں کے لئے بہتر نہیں ہو گا“۔
میری یہ بات سید صاحب سے تنہائی میں ہوئی اور جناب سید نے علانیہ یہ بات کہی:
”جو بھی میرے پاس سے اپنے وطن لوٹ کر جائے گا اس کا ایمان گیا“۔
اس معاملے میں بھی میں نے ان کی بد اندیشی کا مشاہدہ کیا۔ میں نے ان سے کہا:
”آپ عجلت کر رہے ہیں، مگر اس معاملے میں عجلت مناسب نہیں۔ بہتر ہو گا اگر آپ مجھ کو اپنا وکیل بنا کر پشاور کے رئیسوں کے پاس بھیج دیں اور آپ ان کو لکھ دیں کہ وہ لوگوں کو آپ کی اطاعت سے منع نہ کریں اور آپ کے پاس آنے والے مجاہدوں کا راستہ وہ لوگ نہ روکیں“۔
سید صاحب نے کہا:
”میرے نزدیک یہ صورت مناسب نہیں ہے کیوں کہ یار محمد (رئیس پشاور) کے دل میں ذرہ بھر ایمان نہیں ہے، وہ تم کو قتل کر دے گا“۔
میں نے سید صاحب سے کہا:
”اگر اس نے مجھے قتل کر دیا تو اس کے خلاف آپ کی طرف سے اتمام حجت ہو جائے گا۔ بلا سوال و جواب آپ کا ان سے قتال کرنا جائز نہیں، کیوں کہ وہ لوگ آپ کی آمد سے پہلے کے یہاں کے حکام ہیں“۔
یہ سن کر سید صاحب خاموش رہے۔ جب میں نے یہ دیکھا تو کہا:
”مجھے اپنا وکیل بنا کر لاہور کے کتے کے پاس بھیج دیجیے اور اسے لکھ دیجیے کہ مسلمانوں کے درمیان جنگ کا طریقہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کے پاس ایک وکیل بھیجتے ہیں کہ وہ اسلام لے آئیں یا پھر جزیہ دینا قبول کریں۔ اس لئے میرے اس وکیل اور قاصد کے ذریعے میرے خط کا جواب دو“۔
اس پر جناب سید نے کہا:
”میں ایسا نہیں کروں گا، کیوں کہ وہ ہم پر ہنسیں گے اور مسلمانوں پر کافر کا ہنسنا میرے نزدیک جائز نہیں“۔
جب میں نے یہ حالت دیکھی، میں سمجھ گیا کہ میرا یہاں رکنا جلد ہی فتنہ و فساد کا موجب ہو گا، اس لئے میں نے سید صاحب سے رخصت لی۔ جب سید احمد نے مراجعت کے لئے میرے عزم مصمم کو دیکھا اور جو لوگ میرے ساتھ تھے ان میں سے اکثر لوگ ان کی اجازت اور میری مرضی کے بغیر میرے ساتھ ہندوستان واپس ہو لیے تو سید صاحب نے مختلف لوگوں کے نام متعدد خطوط لکھے، جن کی تعداد 28 ہے۔ ان کے ان خطوط کے مخاطب سلطان دہلی ابو النصر معین الدین محمد اکبر، صاحب تمغا نواب احمد بخش خان فیروز پور، شاہ عبد العزیز کے نواسے مولانا ابو سلیمان اسحاق، شیخ ابو سعید مجددی اور اسی طرح ہندوستان کے دیگر روٴسا اور علما تھے۔
یہ بھی پڑھیے: فرقہ وارانہ دہشتگردی کے دو سو سال
جب میں پشاور آیا تو یار محمد خاں نے میری تعظیم و توقیر کی اور عزت و احترام کے ساتھ مجھے اپنا مہمان بنایا۔ میں نے سفر کے ضروری اخراجات کیلئے تین اونٹ فروخت کر دیے۔ اس کی خبر سید صاحب کو پہنچی اس پر ان کے دل میں جو آیا، لوگوں سے کہا، اور میرے پاس یہ کہلا بھیجا کہ مکاتیب کے ساتھ میرے پاس آ جاؤ اور اگر نہیں آؤ گے تو انہیں میرے پاس بھیج دو، کیوں کہ مجھے فی الوقت کسی ہندوستانی کو خط نہیں لکھنا ہے۔ جب میں نے دیکھا کہ جناب سید وہی کرتے ہیں جو یار محمد خاں کا جاسوس سید شاہ کہتا ہے اور انہیں اس کے قول و فعل پر بڑا اعتماد ہے، تو میں نے حاجی ہاشم خان پشاوری کے ہاتھ سید صاحب کو خطوط بھیج دیے اور ان کے بوجھ سے میں آزاد ہو گیا۔
پشاور سے میں نے مولانا اسماعیل کے خط کا جواب لکھا جو پنجتار میں تھے، کیوں کہ میرے پشاور پہنچنے کے بعد سید صاحب کی طلبی پر مولانا اسماعیل، سید شاہ کے ساتھ ناکام و نامراد پکھلی سے پنجتار لوٹ آ ئے تھے۔ ملاقات کے بغیر واپس لوٹ جانے پر انہوں (شاہ اسماعیل دہلوی) نے مجھے تاٴسف کا خط لکھا۔ اس وقت میں بخار کی شدت اور اسہال کی وجہ سے کافی بیمار تھا اور ان کے پاس ملاقات کے لئے جانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا۔ جب میری طبیعت بحال ہوئی تو میں کافی کمزور ہو چکا تھا اور مولانا اسماعیل سید صاحب کے ساتھ ساکوٹ کے پہاڑ کی طرف نکل گئے تھے جو بہت دور اور کافی مشکل تھا۔ اس طرح میں مولانا اسماعیل سے ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے مغموم دہلی لوٹ آیا، لیکن مولانا عبد الحئی صدیقی سے پنجتار میں میری ملاقات ہو گئی تھی۔ وہ کھجلی کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان کا انتقال 7 یا 8 شعبان 1243 ہجری میں ہوا۔
میں 5 شعبان جمعرات کو دہلی پہنچا۔ میں نے سنا کہ جمعہ کو اہل ہند کے نام میری شکایت پر مشتمل مولانا عبد الحئی کا خط آیا ہے، مگر مولانا اسحاق نے فتنے کو دفن اور ختم کرنے کے لئے اس خط کو پوشیدہ رکھا۔ لیکن مومن خان مومن (اردو کےشاعر) اور امام علی فارسی خان بلرانوی اور ان جیسے جاہلوں نے میرے تعلق سے اپنے کذب و افترا پر مشتمل ایک خط دہلی سے مولانا اسماعیل کو لکھا کہ وہاں (سرحد) سے لوٹنے والے سید احمد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کے اندر امامت کی لیاقت نہیں ہے اور وہ ایسے ایسے ہیں۔ یہ لوگ ان کے عیوب شمار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ جہاد نہیں، فساد ہے، جب کہ میں اس تہمت سے بری ہوں۔ ان لوگوں نے مجھ سے ملاقات نہیں کی اور اپنے خطوط میں لکھ دیا کہ اس گروپ کے لیڈر محبوب (مولانا محبوب علی) ہیں۔ مولانا اسماعیل نے ان کے عجوب میں ایک خط لکھا جس میں جمیع اہل اسلام پر سید احمد کی امامت کو ثابت کیا اور جو سید احمد کی توہین کرے، اس کی توہین اور قتل کو جائز لکھا۔ لیکن انہوں نے مجھے اور امیر امان علوی کو مستثنیٰ قرار دیا اور خط میں لکھا کہ سید محبوب علی سلمہ الله میرے نزدیک ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جنہوں نے ایسی باتیں کی ہیں، بلکہ میں ان کی غیرت اسلامی سے واقف ہوں، واللہ اعلم۔
سچی بات یہ ہے کہ علما اور امرا سے بے خبر جاہلوں کی چاہت نے ملک کو ویران کر دیا اور اسے چھوڑ دیا ہے۔ یہ خط دہلی میں 1244 ہجری کو آیا تھا۔ مفسدوں نے اس کے نقول لکھے اور اسے ملک بھر میں تقسیم کیا اور فساد برپا کیا۔ یعنی اس مکتوب کے سطور میں اپنے خبث باطن کو بھی شامل کر دیا اور حضرت فاطمہ کی پاک اولادوں کی عداوت میں لوگوں کو ہلاک کیا اور ان میں سے بعض نے مجھ سے بھی بغض روا رکھا، کیوں کہ میں بھی اولاد فاطمہ سے ہوں۔ بعض جاہلوں نے سید المجاہدین سے بھی عداوت رکھی اور مجاہدین کو مفسدین گردانا، حالانکہ یہ سب حرام اور ملت میں تخریب کے مترادف ہے۔
اس سلسلے میں لوگوں پر واجب ہے کہ مجاہدین جہاں اور جیسے ہوں، ان کے لئے دعائے خیر کریں اور سید احمد کے لئے دعائےرحمت کریں، کیوں کہ انہی کی وہ شخصیت ہے جس نے الله کی راہ میں سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا اور کفار سے جہاد کیا۔
سید صاحب کی شہادت میں خود ان کے معتقدین میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ ان کے بعض معتقدین کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور ان پہاڑوں میں جہاں قوم گوجر آباد ہے (سوات)، روپوش ہو گئے ہیں۔ وہ دل سے روتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ غیبی امداد کرے۔ بعض کہتے ہیں کہ مولانا اسماعیل کی شہادت کے بعد وہ بھی شہید ہو گئے ہیں۔ ایک ہی دن اور ذی قعدہ کے مہینے میں بالا کوٹ ضلع درہ کنار کے پاس سکھ کافروں کے ہاتھوں دونوں کی شہادت ہوئی ہے۔ اور سید کرم علی حافظ قرآن کا بیان ہے کہ مولانا اسماعیل کے بائیس دن بعد جب کہ سید صاحب نماز پڑھ رہے تھے، شہید کر دیے گئے اور ان کا سر کاٹ کر حاکم لاہور کے پاس بھیج دیا گیا۔ یہ 1246 ہجری کا واقعہ ہے۔ پھر جو ان کے زندہ رہنے کے قائل ہیں، ان میں القاسم الکذاب پانی پتی اور ان کے ہم خیال کہتے ہیں کہ جو شخص یہ خیال کرے کہ جناب سید کی وفات ہو گئی ہے اور دوسرے کے لئے جائز ہے کہ وہ امیر المومنین ہو جائے، وہ کھلا گمراہ ہے۔
یہ بدبخت دلوں کا مرض ہے۔ الله ہمیں ان کے شر سے بچائے اور شیطان، الله اور الله کے مخلص بندوں کا دشمن ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس مختلف فیہ فتنے کی وجہ سے لوگ سید صاحب کے لئے دعا ئے مغفرت نہ کریں۔ اگر سید احمد رحمہ الله زندہ ہوتے ہوئے بھی چھپے ہوئے ہیں تو وہ میرے نزدیک خاطی ہیں، کیوں کہ اس طرح چھپ کر رہنا جہاد کے لئے مفید نہیں بلکہ حد درجہ مضر ہے، کیوں کہ جہاد کا عمل واضح اور محکم آیات اور روشن احادیث کریمہ پر مبنی ہے۔ تنگ الہامات اور شاعرانہ خیالات پر نہیں۔ اس امت کے آخر کی اصلاح اسی سے ہو گی جس سے امت کے اولین کی اصلاح ہوئی تھی اور وہ جہاد میں الله کے رسولﷺ کا اتباع ہے۔ یہی فقہا اور علما کا طریقہ ہے جو عظیم فوج اور لشکروں پر غالب ہوئے۔ جیسا کہ الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے قدیم کلام میں فرمایا:
”اور جو قوت تمہیں بن پڑے ان کے لئے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو الله کے دشمن اور تمہارے دشمن ہیں اور ان کے علاوہ دوسروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے، الله جانتا ہے“۔
اور ظاہر یہ ہے کہ علم شرعی سے ناواقفی کے باوجود تصوف اور صوفیہ سے قربت فساد در فساد ہے۔
[1] مصنف کے سفری حالات یہاں پڑھے جا سکتے ہیں۔ مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حصے کو آخر میں پیش کیا جا رہا ہے۔
میرے ساتھ حافظ ابو محمد اسحاق آنبلی افغان، سید زفر دہلوی، سید امیر علی نیپالی، عبد الرحمٰن بن شیخ ابو محمد حسین زہوتوی اور عبد الصمد میواتی تھے۔ راستے میں میں چمکنی میں رکا اور شیخ عمر کے مقبرے میں میرن شاہ ہندی کی قبر کی زیارت کی۔ میرن شاہ میرے دوستوں میں تھے جن کی پہلی ربیع الثانی 1243 ہجری میں وفات ہو گئی تھی۔ پھر میں 21 جمادی الاخریٰ کو خیر آباد میں ٹھہرا، جو قلعہٴ اٹک کے سامنے دریائے اباسین کے کنارے واقع ہے۔ پشاور سے خیر آباد 30 میل کے فاصلے پر ہے۔
اس طرح ہم نے کامران میں حافظ عبد الغفار، مہورہ میں محمد حسن نجار ترکبان سے ملاقات کی، انہوں نے کہا ہے:
غیر شرع کو پیر کہاون
سڑی مریدن دوزخ جاون
اورکوٹ کے قریب شچوں میں محمد خان اور شیخ عبد الوہاب سے، نیز کنڈہ کاسہ میں حافظ غلام رسول سے ملاقات کی جو شاہ نقشبندی کے خلفاء میں تھے۔ انہوں نے مجھ سے دعائے حزب البحر کی اجازت چاہی اور مجھے دعائے سیفی کی اجازت دی۔ پھر ہم نے محمد احسن ابن مولانا محمد حسین سے کملیال میں ملاقات کی جو سنی عالم اور زاہد ہیں، وہ (مولانا محمد حسین) کسی دوسری جگہ تھے مگر ان کے بیٹے سے ملاقات میں میں نے ان کے علم و زہد کو جانا، کیوں کہ لوگ اپنے اصحاب کےذریعے جانے جاتے ہیں۔ ڈھلہ میں حاجی فتح محمد نعال اور امام مسجد فتح شاہ، جو موضع جہان خاں کے سردار ہیں، اور بلو میں حافظ شمس الدین سے ہم ملے۔ 25 جمادی الاخریٰ کی رات ہم جسوال میں رکے اور وہاں سادات ہمدانیہ سے ہم لوگوں نے ملاقات کی جو امام موسیٰ کاظم ابن امام جعفر صادق کی اولاد میں تھے اور ان کے بھائی اور رشتہ دار ہزنی آلی میں ہیں جو کنڈہ کاسہ اور ڈھلہ کے درمیان ہے اور 26 جمادی الاخریٰ کی رات کوس میں رکے، پھر 27 جمادی الاخریٰ کو احمد خان راجہ کے گھر پیران کوٹ میں اور 27 جمادی الاخریٰ کو جلال پور میں، جو دریائے جہلم سے ایک میل کے فاصلے پر ہے، اس کو ہم نے عبور کیا اور ڈھوک پہنچے، پھر سروانی، اس کے بعد 30 جمادی الاخریٰ کو ہم رسول نگر پہنچے اور قاضی امام الدین کی مسجد میں ٹھہرے۔ پھر رجب کی پہلی تاریخ کو کلاسکہ میں کاتب قرآن شیخ قادر بخش کی مسجد میں، یہ بہت عابد و صالح انسان ہیں۔ 11 رجب کو ہم عنبر سار پہنچے اور بہت زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے وہاں تین رات اور دو دنوں تک رکے رہے۔ پشاور اور عنبر سار کے درمیان 169 میل کی مسافت ہے۔ پھر ہم 13 رجب کوماناوالہ کے لئے وہاں سے نکلے اور نور محمد نور بافت کے گھر قیام کیا، جو دین دار اور غریبوں سے محبت کرنے والا انسان ہے۔
15 رجب کو ہم نے دریائے ویاس اور 20 رجب کو دریائے ستلج عبور کیا اور ہم قصبہ لدھیانہ پہنچ گئے اور شجاع الملک چھاونی میں ہداد خاں کے گھر ہم فروکش ہوئے اور وہاں دو راتیں اور ایک دن قیام کیا۔ 22 رجب کو ہم لدھیانہ سے نکلے اور سرلی لشکر خان پہنچے، پھر 23 رجب بروز سنیچر ہم سرہند پہنچے اور امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ ابو البرکات بدر الدین احمد سرہندی کے مرقد مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے اور شیخ ابو محمد معصوم قدس سرہ کی مسجد میں ہم نے رات گزاری، وہاں شیخ لالہ موجود نہیں تھے مگر مسجد میں رہنے والے کلاب شاہ اور حاجی شاہ نے ہماری عزت و توقیر کی اور ہماری آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ سرہند میں ہم نے تمام مشائخ مجددیہ، خصوصاً حضرت معصوم اور حضرت زبیر کی قبروں کی زیارت کی۔ قبروں پر تعمیر کے علاوہ ہم نے وہاں کسی قسم کی بدعت نہیں دیکھی کیوں کہ امام ربانی نے خود ہر قسم کی بدعت سےمنع فرمایا تھا۔ پھر ہم 24 رجب پیر کے روز سرہند سے نکل کر سرائے بنجارہ پہنچے، منگل کو انبالہ، بدھ کو شہباز اور 27 رجب بروز جمعرات تھانیسر، وہاں ہم نے شیخ جلال فاروقی تھانیسری اور شیخ عبد الکریم چلی کی قبروں کی زیارت کی۔ 28 رجب کو ہم فوجی چھاونی کرنال پہنچے، وہاں جمعہ کی نماز ادا کی اور 29 رجب تک وہاں قیام کیا۔ پھر پہلی شعبان اتوار کے دن کرنال سے نکلے۔ اسی دن ہم سے حافظ اسحاق آنبلی اور ان کے رفیق نور خان رام پوری رخصت ہوئے، پھر ہم پانی پت پہنچے اور وہاں مشائخ کی قبروں کی زیارت کی۔ اسی طرح 2 شعبان کو سرائے سہمالکہ، 3 شعبان 1243 ہجری کو سونفت، جہاں امام ناصر الدین کے مزار کی زیارت کی