13 جولائی 2018؛ نواز شریف کی واپسی پر جہاز کے اندر کا آنکھوں دیکھا حال

'طالبان، افغانستان، ماضی کی بیمار سوچ میں گلتی سڑتی سکیورٹی پالیسی، فرسودہ نظام تعلیم اور مذہبی تفریق میاں نواز شریف کا ورثہ ہی نہیں، پاکستان میں اقتدار کے خواہاں ان جیسے ہر سیاسی رہنما کی تقدیر ہے۔ اس سے لڑنا کوئی معمولی چیلنج نہیں۔ اس کے لئے کوئی قسمت کا دھنی چاہئیے اور میاں نواز شریف قسمت کا وہ بچہ ہے جو ہمیشہ تقدیر سے بھڑا ہے'۔

13 جولائی 2018؛ نواز شریف کی واپسی پر جہاز کے اندر کا آنکھوں دیکھا حال

نواز شریف 13 جولائی 2018 کو آخری بار اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ گرفتاری دینے کے لئے پہنچے تھے۔ چونکہ یہ ایک اہم ایونٹ تھا اس لئے بی بی سی اردو کی انتظامیہ اس بارے میں سوچ بچار کر رہی تھی۔ میں نے اپنی ایڈیٹر مہوش حسین کو فون کر کے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اس سفر کے لئے رپورٹنگ کرنا چاہتا ہوں اور میرے پاس برطانیہ کا ملٹی پل انٹری ویزا بھی ہے۔ انھوں نے 10 تاریخ کو مجھے اجازت دی اور میں نے ٹکٹ بک کروایا۔ چونکہ میاں صاحب اتحاد ایئرویز سے سفر کرنا چاہ رہے تھے اس لئے چار و ناچار شدید ناپسندیدگی کے باوجود مجھے بھی اس ایئرلائن کا ٹکٹ بک کروانا پڑا۔

یوں 11 جولائی کی رات میں لندن کے لئے روانہ ہوا اور میرے پاس لندن میں رکنے کے لئے صرف ایک رات تھی۔ یہ لندن میں سیاحت کے عروج کا وقت ہوتا ہے جب لندن میں ہوٹلوں کے کمرے ملنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے۔ گرمیوں کے چند مہینوں میں لندن کے تمام ہوٹلوں میں 95 فیصد بکنگ ہوتی ہے اور ایئر بی این بی ہوٹلوں سے زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ میں نے ایک دوست سے درخواست کی کہ مجھے رکنے کے جگہ دیں تو انھوں نے مجھے ایک ہوسٹل میں کمرہ دیا۔

خیر میں 11 جولائی کو لندن پہنچا، سامان میں نے صرف ایک ہاتھ میں پکڑا بیگ رکھا تھا جس میں میرا مائیکروفون اور ملٹی میڈیا کا سامان زیادہ تھا اور اپنی چیزیں کم۔ یعنی صرف دو شرٹیں اور ایک جینز۔ جب میں لندن براستہ ابوظہبی پہنچا اور اس ہوٹل پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے کمرے میں طلبہ رکے ہیں۔ یہ شیئرنگ کمرہ تھا اور سارے حسب معمول خوب شور کر رہے تھے تو میں نے بکنگ ڈاٹ کام پر قسمت آزمائی اور مجھے کنگز کالج کے ہاسٹل میں ایک کمرہ خالی ملا۔ گرمیوں میں لندن کی اکثر یونیورسٹیوں اور کالجز کے ہاسٹل کرائے پر چڑھائے جاتے ہیں جنہیں بغیر سہولیات کے ہوٹل سمجھا جاتا ہے۔ آپ کو ایک پاسپورڈ ای میل کر دیتے ہیں جو آپ کو اندر آنے جانے کے لئے دروازہ کھول دیتا ہے۔ ویسے بھی لندن میں ہوٹل میں سہولیات تو ہوتی ہی نہیں۔

خیر میں ہوٹل پہنچا، راستے میں کھانا کھا لیا تھا اور جاتے ہی سو گیا۔ میرے خیال میں شاید میں 12 گھنٹے سے زیادہ سویا ہوں گا کیونکہ اگلے دن اٹھ کر میں سیدھا ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچا جہاں ن لیگ کے کارکن پہلے سے پہنچے ہوئے تھے۔ شام کے 8 بجے کا وقت تھا اور میں نے پہلا مختصر لائیو بی بی سی اردو کے سوشل میڈیا کے لئے وہاں سے ریکارڈ کیا۔ شنید تھی کہ میاں صاحب یہاں آئیں گے اور کارکنوں سے ملیں گے تو میں بھی چیک ان کرنے کے بعد انتظار کرنے لگا کہ اسی اثنا میں چند نوجوان آ گئے جن کا تعلق تحریکِ انصاف سے تھا اور ماحول تھوڑا گرم ہو گیا۔ گالم گلوچ ہوئی، ہاتھا پائی ہوتے ہوتے رکی اور فلائٹ کا ٹائم آ گیا مگر میاں صاحب کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ میرے خیال میں یہیں سے مجھے لگنے لگا کہ میاں صاحب جو امیدیں لے کر جا رہے ہیں وہ پوری ہونے والی نہیں۔

چونکہ میاں صاحب بزنس کلاس میں سفر کرنے والے تھے اس لیے واپسی کے سفر کے لئے بی بی سی نے مجھے بزنس کلاس کا ٹکٹ لے کر دیا۔ اسی دوران بی بی سی اردو کے شفیع نقی جامی صاحب اور ان کا کیمرہ مین انتظار کرتے کرتے چلے گئے۔ نہ میاں صاحب اور نہ مریم نواز شریف نے انہیں انٹرویو دیا مگر آخری وقت تک نجانے کیوں ان کی آس بندھائے رکھی کہ وہ کئی گھنٹے میک اپ کر کے تیار بیٹھے رہے کہ انٹرویو اب آیا کہ تب۔ مگر میاں صاحب کا ارادہ نہ بن سکا اور یوں ہم طیارے میں پہنچے۔

طیارے میں لندن سے پاکستانی میڈیا کے لئے کام کرنے والے تمام صحافی موجود تھے، مرتضیٰ علی شاہ، سید کوثر کاظمی، اظہر جاوید وغیرہ موجود تھے اور یہ سب بزنس کلاس میں براجمان تھے۔ یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ میاں صاحب خاموشی سے فرسٹ کلاس میں پہنچ چکے ہیں اور اپنے کارکنوں سے ملے بغیر سیدھے فاسٹ ٹریک سے ہوائی اڈے پہنچے اور طیارے کے اندر چلے گئے۔

اس پرواز کے لئے اتحاد نے اپنا ایئر بس اے تھری ایٹی طیارہ لگایا تھا جس میں بزنس اور فرسٹ کلاس اوپر والی منزل پر ہوتے ہیں۔ تو فرسٹ کلاس میں میاں صاحب، مریم نواز، عرفان صدیقی صاحب اور رمیضہ مجید نظامی تھے۔ نوائے وقت گروپ کی سربراہ رمیضہ نے یہ سفر لندن سے میاں صاحب کے ساتھ ساتھ کیا۔ فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس کے درمیان والے دروازے پر ایئرلائن نے دو مارشل تعینات کیے جنہوں نے کسی قسم کے کیمرے پر سختی سے پابندی لگا دی تھی۔ میں نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرنی تھی مگر اس پر بہت لے دے ہوئی۔ کسی کو فلمبند کرنے سے منع کیا گیا مگر میں نے سیلفی سٹائل میں ویڈیو ریکارڈ کرنا چاہی تو اس پر بھی یہ مارشل خوش نہیں تھے۔ مگر چونکہ میں قاعدے پر عمل کر رہا تھا اس لیے روک بھی نہیں سکتے تھے مگر انھوں نے اسے ناکام بنانے کے لئے روشنی بند کر دی۔ تو یہ ویڈیوز آپ کو شدید اندھیرے میں نظر آئیں گی۔ بی بی سی پنجابی کے فیس بک پر یہ ویڈیو موجود ہے۔

دوران سفر طیارے کے لاؤنج میں ہم سب منتظر تھے مگر میاں صاحب کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے علاوہ کسی کو فرسٹ کلاس میں آنے جانے کی اجازت نہیں تھی جنہوں نے آس دلائی کہ میاں صاحب آ کر بات کریں گے مگر یہ آس بھی بر نہیں آئی۔ اسی پرواز پر عاصمہ شیرازی بھی ہمارے ساتھ اکانومی کلاس میں سفر کر رہی تھیں جنہوں نے میاں صاحب کے ساتھ لندن میں ایک انٹرویو کیا تھا جو آج نیوز نے نشر کرنے سے انکار کر دیا تھا اور آج تک نشر نہیں ہوا۔ اس کے بارے میں آگے چل کر ایک بات ریکارڈ پر لاؤں گا۔ 

خیر گپ شپ کرتے 6 گھنٹے کے قریب کا یہ وقت گزرا اور ہم ابوظہبی پہنچے۔ یہاں پہنچتے ہی میاں صاحب کو پہلے خاموشی سے نکال کر حکومتی 'الدار لاؤنج' میں لے گئے۔ جس کے بعد ہمیں نکلنے دیا گیا اور نکلتے ہی میرے لیے ایئرپورٹ سکیورٹی کے اہلکار وارنٹ لیے کھڑے تھے۔ طیارے کے مارشلز نے شکایت لگائی تھی کہ میں نے ان کی بات نہیں مانی۔ مجھ سے میرا پاسپورٹ مانگا گیا جو میں نے دینے سے انکار کیا اور انھیں بتایا کہ میں کس مقصد سے سفر کر رہا ہوں۔ خیر نصف گھنٹے کی مغز ماری کے بعد جب میں اپنی بات پر اڑا رہا اور ایئرلائن کو ٹوئٹر پر احوال لکھا تو کچھ حرکت پیدا ہوئی۔ ایک صاحبہ تشریف لائیں، معذرت کیے بغیر مجھے ساتھ چلنے کا کہا گیا اور مجھے بزنس کلاس لاؤنج میں لا کر چھوڑ دیا گیا۔ یہاں آ کر دیکھا تو تمام صحافی یہاں پر لائے گئے تھے۔ وہ جو لندن سے ساتھ آئے تھے اور وہ جو پاکستان سے ابوظہبی میاں صاحب کے ساتھ سفر کرنے کے لئے پہنچے تھے۔ سب کے سب ایک لاؤنج میں جمع کر دیے گئے۔

میرے ساتھی سکندر کرمانی بھی یہاں ملے جو بی بی سی نیوز کے نمائندے تھے جبکہ دوسرے کئی نامور صحافی جن کے ناموں کے ساتھ سینیئر لکھا جاتا ہے، بھی موجود تھے۔ یہاں پہنچ کر میں نے اپنی رپورٹنگ کی، ویڈیوز بھجوائیں اور صورتحال بھجوائی۔ کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھے عاصمہ شیرازی ملیں تو میں نے ان کے ساتھ فیس بک لائیو کیا جو بہت دیکھا گیا۔ چونکہ وہ لندن میں تھیں اور میاں صاحب کے ساتھ انٹرویو کر چکی تھیں تو ان کے پاس معلومات تھیں۔ اس انٹرویو تک پرواز میں کافی تاخیر ہو چکی تھی۔ ایئرلائن نے طیارہ تبدیل کیا اور ایک پرانا طیارہ اس فلائیٹ کے لئے لگایا۔ ساتھ ہی جب لوگوں کو پتا چلا کہ اس پرواز پر میاں صاحب جا رہے ہیں اور لاہور میں کرفیو کی شنید تھی تو بہت سے مسافروں نے اپنی پرواز تبدیل کرا لی۔ یوں اچانک سے بزنس کلاس میں کافی ساری نشستیں خالی ہو گئیں۔ عاصمہ نے یہاں پر آ کر اکانومی سے بزنس کلاس میں اپ گریڈ کیا مگر ادائیگی کرتے وقت ان کا کارڈ نہیں چلا یا کوئی اور مسئلہ تھا تو میں نے اپنے کریڈٹ کارڈ سے ان کے اپ گریڈ کی رقم ادا کی جسے انھوں نے پاکستان پہنچتے ہی لوٹا دیا۔ میں اس سے پہلے عاصمہ کو ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا۔ دوسرے بھی کئی صحافیوں نے اپ گریڈ کیا اور یوں تقریباً ساری بزنس کلاس صحافیوں سے ہی بھری ہوئی تھی۔

اب چونکہ بہت دیر ہو چکی تھی اور مریم نواز صاحبہ کو بذریعہ رمیضہ بار بار کہا گیا کہ میاں صاحب سے بات ہونی چاہئیے تو پھر رمیضہ کے فون پر بزنس کلاس لاؤنج سے ایک صحافی کے فون سے کال کی گئی اور یوں بذریعہ فون ایک پریس کانفرنس سی ہوئی جسے میں نے بی بی سی اردو کے فیس بک پیج پر براہ راست نشر کیا۔ پاکستانی میڈیا کو میاں صاحب کی گفتگو چلانے کی اجازت نہیں تھی اس لیے شاذ ہی کسی چینل نے اسے چلایا۔

اس گفتگو کے بعض حصوں کی ویڈیو بھی رمیضہ نے بنائی جن میں میاں صاحب اور مریم ساتھ ساتھ بیٹھے ہیں اور میاں صاحب نے فون ہاتھ میں پکڑا ہے جس کا لاؤڈر آن ہے اور ان سے گفتگو کرنے والے کی گفتگو سنی جا سکتی ہے۔ بزنس کلاس سے سوال کرنے والوں میں سکندر کرمانی، نصراللہ ملک، اظہر جاوید اور عاصمہ شیرازی تھے۔ مگر پی ٹی آئی کی جانب سے عرصہ دراز سے اس ویڈیو کو استعمال کر کے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا کہ یہ میاں صاحب اور عاصمہ شیرازی کی کال تھی جو لیک ہو گئی۔ درحقیقت یہ پریس کانفرنس تھی جس میں عاصمہ نے میاں صاحب کی تقریر اور سنسرشپ کی بات کی اور جواباً میاں صاحب نے عاصمہ کو یاد دلایا کہ آپ نے جو میرا انٹرویو کیا تھا وہ بھی نہیں چلنے دیا گیا۔ یہ پریس کانفرنس ختم ہوئی تو پرواز کا انتطار پھر سے شروع ہوا۔

خیر ڈیڑھ گھنٹہ گزر جانے کے بعد شام کو پرواز کے لئے بورڈنگ شروع ہوئی اور ہم طیارے میں پہنچے۔ طیارہ کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جس میں آدھے سے زیادہ صحافی تھے۔ اس بار پرواز میں ایک سے زیادہ مارشلز تھے جنھوں نے بزنس کلاس اور اکانومی کے درمیان اپنے آپ کو ایستادہ کیا اور ہلنے سے انکاری رہے۔ پرواز دھیرے دھیرے روانہ ہوئی اور بزنس کلاس میں صحافیوں نے میاں صاحب کو گھیرا۔ ایک بار پھر سوال جواب ہوئے۔ میاں صاحب سب سے آخری نشستوں پر بیٹھے اور طیارے میں دو نشستوں کی تین قطاریں تھیں۔ تو مریم اور میاں صاحب درمیانی نشست پر تھے اور عاصمہ کو ان کے ساتھ دوسری جانب نشست ملی تھی۔ عرفان صدیقی میاں صاحب کے سامنے والی نشست پر تھے اور خواجہ حارث اور ڈاکٹر عدنان بھی ساتھ والی نشستوں پر تھے۔ جب یہ پریس کانفرنس کچھ تھمی تو خواجہ حارث میاں صاحب کے ساتھ مریم نواز کی نشست پر آ کر بیٹھ گئے اور مریم طیارے کے آگے والی جانب جا کر بیٹھ گئیں۔ وہاں پر عاصمہ شیرازی نے مریم نواز کا انٹرویو ریکارڈ کیا جسے سید کوثر کاظمی نے عاصمہ کے فون پر ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو میں مریم نے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا، خاص طور پر ڈان لیکس دور کی ڈی جی آئی ایس پی آر کی ریجکٹڈ والی ٹویٹ کے حوالے سے کہا کہ میاں صاحب نے کہا کہ مجھے ایسا لگا جیسے میرے منہ پر کسی نے تھپڑ مارا ہو۔

خیر سفر جاری رہا اور درمیان میں اکانومی سے ن لیگی کارکنوں نے نعرے لگائے مگر میاں صاحب اپنی نشست سے نہیں ہلے۔ اس دوران عملہ اپنے کام میں مصروف رہا مگر یہ کوئی آسان پرواز نہیں تھی اور آگے چل کر عملے کا اصل امتحان آنے والا تھا۔

طیارہ جب فائنلز پر پہنچا تو اکانومی کے مسافر پہلے سے ہی اڑتے طیارے میں کھڑے ہو گئے۔ کچھ تو اکانومی کی جانب چلنا شروع ہو گئے جس پر عملے نے چیخ چیخ کر کہا کہ پرواز کا بیلنس خراب ہو جائے گا مت کریں۔ خیر کون سنتا ہے ایسے ماحول میں اور جیسے ہی طیارہ اترا سب نے دوڑ لگا دی اور اکانومی کے دروازے پر رش لگ گیا۔ اس کے بعد طیارہ گیٹ پر جانے کی بجائے ٹیکسی وے پر چلتا رہا اور ٹرمینل سے دور جاتا رہا۔ یوں طیارہ حج ٹرمینل والی سائیڈ پر آ کر رکا جہاں پر سیڑھیاں لگائی گئیں جبکہ باہر ہمیں ایئرپورٹ سکیورٹی فورسز کا ایک بڑا جتھا نظر آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایجنسیوں کے اہلکار اور نجانے کون کون تیار کھڑا تھا۔

دروازہ کھلتے ہی عملے کی بحث شروع ہو گئی کہ سکیورٹی اہلکار اندر نہیں آ سکتے مگر اے ایس ایف کے اہلکاروں اور دوسروں نے دھونس جماتے ہوئے زبردستی اندر آ کر لوگوں کو باہر نکالنا شروع کیا۔ جو رکتا تھا اسے اٹھا کر باہر پھینکا جاتا تھا یا دھکے دیے جاتے تھے۔ خیر مجھے بھی اٹھا کر ایک اہلکار نے باہر نکالا اور طیارے کے سامنے کی سیڑھیوں سے بزنس کلاس کے لوگوں کو اتارا گیا۔ یوں ہم باہر آ گئے اور میاں صاحب اور مریم کے نکلنے کا انتظار شروع ہوا۔ ان کے اور انتطامیہ اور ایجنسیوں کے لوگوں کے درمیاں بحث کے بعد مریم اور میاں صاحب نے نکلنے کا فیصلہ کیا جس پر مریم نے کہا کہ میں آگے چلوں گی۔ یوں وہ آگے لگ کر میاں صاحب کے سامنے کھڑی ہوئیں اور اس طرح یہ سب باہر نکلے۔ طیارے کی سیڑھیوں سے اترنے تک سب کچھ بہت مہذبانہ تھا اور کوئی دھکم پیل نہیں تھی مگر اترتے ہی جیسے غدر مچ گیا۔ دھکم پیل شروع ہو گئی اور مریم اور نواز شرف ہجوم کے اندر پھنس گئے جنہیں اے ایس ایف کے اہلکاروں نے گھیرا ہوا تھا۔ چند کارکن بھی ساتھ تھے اور یہ ہجوم کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری جانب جاتا تھا۔ اس دوران افواہیں ریکارڈ کی جاتی رہیں مگر نشر نہیں ہو سکتی تھیں کیونکہ انٹرنیٹ اور فون سروس بند تھی۔

دھکم پیل کا یہ سلسلہ آدھے گھنٹے تک جاری رہا مگر نواز شریف اور مریم نواز دونوں اس سلیٹی رنگ کی گاڑی میں نہیں بیٹھے جو اُن کے لئے کھڑی تھی اور کافی دیر تک یہ کشمکش چلتی رہی۔ پھر نواز شریف اور مریم ایک سیاە کار میں بیٹھے اور ان کو پنجاب حکومت کے ایک جیٹ طیارے کے پاس لے جایا گیا۔ پہلے مریم اتریں اور طیارے کی سیڑھی پر کھڑے ہو کر میاں صاحب کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو اشارە کرتی رہیں کہ وہ اندر آ جائیں مگر انھیں اجازت نہیں دی گئی۔ 

پنجاب حکومت کے ایک طیارے پر میاں صاحب اور مریم نواز کو سوار کرایا گیا اور یہ طیارہ 9 بج کر 41 منٹ پر پرواز کر گیا۔ اب ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا۔ میرے ساتھ منیزے جہانگیر تھیں اور ہم دونوں باقی صحافیوں کے ساتھ کھڑے تھے، اس بات سے بے خبر کہ باہر کیا صورت حال ہو گی اور پتا بھی نہیں تھا کہ باہر کیا صورت حال ہے۔ ایئرپورٹ حکام نے ازراہ کرم ایک بس منگوائی اور ہمیں سوار کر کے ٹرمینل پر اتار دیا۔ ہم جب باہر نکلے تو منیزے نے کہا کہ لگتا ہے ہمیں پیدل ہی جانا پڑے گا کیونکہ باہر نہ بندہ نہ بندے کی ذات، بس سکیورٹی ہی سکیورٹی۔ خیر ہم کار پارک سے نکل کر جب سڑک کی جانب آئے تو ایک کالے رنگ کی ٹویوٹا کرولا سامنے آئی جسے ایک دبنگ خاتون ڈرائیو کر رہی تھیں۔ انھوں نے سکیورٹی والوں کی ماں بہن ایک کر کے گاڑی ہمارے سامنے لا کر کھڑی کی اور پوچھا آپ اندر سے آ رہے ہیں تو ہم نے بتایا کہ جی ہم اندر سے آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک حاضر سروس میجر کی اہلیہ ہیں جو تحریک انصاف کے حامی ہیں اور وہ بقول ان کے 'پٹواری' ہیں۔

ہم نے جب انھیں بتایا کہ ہم اس پرواز پر تھے تو انھوں نے ہمیں لفٹ کی آفر کی بلکہ سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا اور تمام ناکوں سے مکھن میں سے بال کی طرح نکال کر ہمیں مال روڈ پر نیوز ویک پاکستان کے ایڈیٹر انچیف فصیح الدین احمد کے گھر پر اتارا۔ راستے میں ہم سے ساری روداد سنی۔ انھیں میاں صاحب کے ساتھ ہونے والے برے سلوک کی بہت فکر تھی مگر ہمارے لیے وہ فرشتہ بن کر عین وقت پر پہنچیں کیونکہ بغیر فون کے اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ہمارے لیے ناممکن تھا کہ ہم گھر پہنچ پاتے۔ حیران و پریشان فصیح نے کچھ دیر مہمان نوازی کی۔ وہاں سے منیزے نے لینڈ لائن سے گھر فون کر کے اپنی گاڑی منگوائی، اپنے گھر اتر کر مجھے میرے ہوٹل ڈراپ کروایا اور یوں یہ دو دن کا ایڈونچر اپنے اختتام کو پہنچا۔

میں نے 14 جولائی کو لاہور سے بی بی سی اردو کے لئے اپنے فیچر میں لکھا تھا کہ؛

'اور پھر طیارە ایک ہیلی کاپٹر کےپیچھے چلتا ہوا پرواز کر گیا۔ اس کے ساتھ ہی اُن لیگی کارکنوں کی امیدیں بھی پرواز کر گئیں جو اس امید پر دنیا بھر سے آئے تھے کہ لاہور ان کے قائد کو شاید بچانے کے لئے امڈ آئے گا۔ ن لیگ کے ساتھ انتخابات میں کچھ بھی ہو، نواز شریف کی قسمت میں آگے کیا لکھا ہے مگر یہ سفر مسلم لیگ نواز کی کہانی میں ایک تاریخی ٹرننگ پوائنٹ ضرور ہے'۔

دوران سفر مجھے ن لیگی کارکنوں نے میاں شہباز سریف کے بارے میں بہت سی باتیں کیں جو آج بہت بہتر طریقے سے سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک نے کہا تھا کہ فیصلہ آنے کے بعد 'شہباز شریف کو لیڈرشپ دکھانی چاہئیے تھی لیکن وہ تو اپنے پنجاب کے قصیدے پڑھتے رہے'۔ دوسرے نے آنٹی گورمنٹ کا مشہور مقولہ دہرایا کہ 'یہ بِک گئی ہے لیگی قیادت' اور ایک صاحب نے تو یہاں تک کہا کہ 'آج فیصلہ ہو جائے گا کہ ن لیگ اور شہباز لیگ میں سے کس نے آگے جانا ہے'۔ اور یہ بات کہ 'نواز شریف کے جانشین نے حقِ جانشینی ادا نہیں کیا'۔

اس سفر کے دوران میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف کا بیانیہ اور مؤقف آج کے بیانیے اور مؤقف سے بے انتہا مختلف تھا اور اس دن لاہور ایئرپورٹ تک نواز شریف تو لندن سے پہنچ گئے مگر شہباز شریف لاہور کے اندر رہتے ہوئے نہیں پہنچ پائے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ نواز آؤٹ اور شہباز اِن ہو گئے۔ یہ ساری باتیں اس سفر کے دوران ن لیگی کارکن چہ مگوئیوں میں کرتے تھے اور ان میں اکثریت نواز شریف کیمپ کے کارکنوں کی تھی۔ بعد میں ہم نے دیکھا کہ بہت سارے وہ خدشات حقیقت بن کر سامنے آئے اور شاید نواز شریف کی تازہ واپسی انہی کی مرہونِ منت ہے۔ تصور کریں کہ اگر آج نیوز عاصمہ شیرازی کا نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ کیا گیا 5 سال پرانا انٹرویو چلا دے تو کیسا بھونچال آئے گا۔

صحافت میں میرے استادوں میں سے ایک عامر احمد خان نے 5 جون 2013 کو نواز شریف کی عام انتخابات میں کامیابی پر بی بی سی اردو کے لئے ایک کالم لکھا تھا جس کی آخری لائن میرے ذہن پر نقش ہے۔

عامر نے لکھا کہ 'طالبان، افغانستان، ماضی کی بیمار سوچ میں گلتی سڑتی سکیورٹی پالیسی، فرسودہ نظام تعلیم اور مذہبی تفریق میاں نواز شریف کا ورثہ ہی نہیں، پاکستان میں اقتدار کے خواہاں ان جیسے ہر سیاسی رہنما کی تقدیر ہے۔ اس سے لڑنا کوئی معمولی چیلنج نہیں۔ اس کے لئے کوئی قسمت کا دھنی چاہئیے اور میاں نواز شریف قسمت کا وہ بچہ ہے جو ہمیشہ تقدیر سے بھڑا ہے'۔

ایک دہائی پرانی اس تحریر کو پڑھ کر لگتا ہی نہیں کہ اسے لکھے ہوئے 10 سال ہو چکے ہیں کیونکہ باتیں ساری وہی ہیں۔ سوال بھی وہی ہے کہ کیا قسمت کا یہ دھنی بچہ ایک بار پھر تقدیر سے نہیں بھڑے گا؟

طاہر عمران تحقیقاتی صحافی ہیں اور بی بی سی سمیت مختلف عالمی صحافتی اداروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔