Get Alerts

خیبر پختونخوا میں پھیلتا ہوا ایڈز،بدنما داغ؟؟خاموشی؟؟اور بڑھتا ہوا خطرہ!

2017 میں کئے گئے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں ایڈز کے ممکنہ مریضوں کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہوسکتی ہے اگر وہ اپنا معائنہ کروائیں،اسی شرح کو آگے بڑھاتے ہوئے آج اگر سروے کیا جائے تعداد 30 ہزار یا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے

خیبر پختونخوا میں پھیلتا ہوا ایڈز،بدنما داغ؟؟خاموشی؟؟اور بڑھتا ہوا خطرہ!

ایڈز کو شرم کی وجہ سے چھپانے والے نہ صرف اپنے آپ کو ایک ایسی مشکل سے دوچار کرسکتے ہیں جسکا انجام موت سے بڑھ کر کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ پہلے مرحلے میں یہ بیماری ایچ آئی وی ہوتی ہے اور بعد میں خطرناک ہوکر ایڈز میں بدل جاتی ہے مریض اسکو چھپا کر ساتھ میں گھر و معاشرے میں موجود لوگوں کے لئے خطرہ بنا ہوتا ہے، کیونکہ اگر آپ اپنے آپ کو محدود نہیں کرینگے،آپکے شیو کے لیے استعمال ہونے والا اُسترا،باقی اشیاء کسی اور کے لئے موت کا سامان بن سکتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے 2017 میں کئے گئے سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں ایڈز کے ممکنہ مریضوں کی تعداد 15 ہزار سے زائد ہوسکتی ہے اگر وہ اپنا معائنہ کروائیں،اسی شرح کو آگے بڑھاتے ہوئے آج اگر سروے کیا جائے تعداد 30 ہزار یا اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔اسکا اعتراف پراجیکٹ ڈائریکٹر ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس خیبر پختونخوا ڈاکٹر طارق حیات بھی کرچکے ہیں،گو کہ صوبے کے مختلف سرکاری ہسپتالوں اور ایڈز مراکز سے علاج کرنے والے مریضوں کی تعداد 8ہزار 356 ہے جس میں 2ہزار 80 خواتین اور 6ہزار 105 مرد اس خطرناک بیماری سے مقابلہ کررہے ہیں اسی طرح خیبر پختونخوا میں 171 خواجہ سراء بھی  اس خطر ناک بیماری کا شکار ہیں ،اسی طرح 283 وہ بچے بھی اسی لسٹ کا حصہ ہیں جنکو اپنی ماؤں سے ایڈز وائرس منتقل ہوا ہے۔

خیبر پختونخوا ایچ آئی وی ایڈز ڈیٹا کے مطابق اسی لسٹ میں 956 وہ مریض بھی شامل ہیں جنکی کوئی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی  ہو سکتی ہے کیونکہ ایچ آئی وی ایڈز کے متاثرہ مریض سے لوگ نفرت کرتے ہیں لوگ بیماری کو چھوڑ کر بیمار سے نفرت کرنا  شروع کردیتے ہیں اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ اپنا معائنہ کروانے سے ڈرتے ہیں،دوسرا مسئلہ جو ایڈز کے مریضوں کو درپیش ہوتا ہے بلکہ یہ ایک چیز اسکے ساتھ باندھ دی کی گئی ہے کہ اگر کسی کو ایڈز ہوا ہے اسکا مطلب اس نے لازمی کوئی ناجائز جنسی تعلقات قائم کئے ہیں دوسری جانب ایک مضائقہ خیز بات یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا میں زیادہ تر ایڈز کے شکار مریض ناجائز جنسی تعلقات کی وجہ سے اس بیماری سے دوچار ہوئے ہیں۔

پراجیکٹ ڈائریکٹر ایچ آئی وی ایڈز ڈاکٹر طارق حیات کے مطابق خیبر پختونخوا میں ایڈز کے شکار مریضوں میں  وہ لوگ شامل ہیں جو ناجائز جنسی تعلقات کی وجہ سے اسکا شکار بنتے ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے اس بیماری سے متاثرہ زیادہ کیسز کی سفری ہسٹری کہیں نہ کہیں امارت سے لازمی طور پر جڑی ہوتی ہے،اُنکا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے سارے خواجہ سرا ءجنسی تعلقات کی وجہ سے اس بیمار کا شکار ہوئے ہیں اور اگر مزید خواجہ سرا ءبھی اپنا معائنہ کروائیں ان کی تعداد کافی بڑھ سکتی ہے دوسرا یہ کہ اگر کوئی خواجہ سرا اس بیماری سے متاثر ہے تو وہ اسکو مزید پھیلا رہا ہے،اُنکے مطابق ایڈز نہ قابل علاج ہے مگر ایچ آئی وی جو اسکا پہلا سٹیج ہوتا ہے اس میں مریض صحت یاب ہوسکتا ہے اگر وہ وقت پر اپنا علاج شروع کرے،اور یہ کہ معائنہ نہ کرکے ایڈز کے شکار لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں جس سے معاشرے کو شدید نقصان کا سامنا ہوتا ہے،کیونکہ ایچ آئی وی ایڈز ایک سے دوسرے کو پھیلتی ہے معائنہ کرنے میں کوئی شرم نہیں ہے لازمی نہیں کہ آپ ایڈز کے شکار صرف جنسی تعلقات کی وجہ سے ہوئے ہیں زیادہ تر لوگ دوسروں کی بدپرہیزی اور بےاحتیاطی سے اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں،ڈاکٹر طارق کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے اب ایڈز پراجیکٹ کو فنڈز جاری کئے ہیں کافی عرصے سے فنڈز کی کمی کا سامنا تھا جس سے مریض بھی مشکلات سے دوچار تھے۔

خیبر پختونخوا کے مشیر صحت احتشام علی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ لوگ اگر اپنا معائیہ نہیں  کروائیں گے  ہم لاکھ کوششیں بھی کریں یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ، اسی بیماری کو ہم روک نہیں سکتے اور یہ کہ ایک دن یہ بیماری اس حد تک خطرناک ہوجائیگی کہ ہم اس کو کنٹرول کرنا تو چھوڑیں ایک دوسرے سے دُور رہنا پسند کرینگے۔

مشیر صحت کا مزید کہنا تھا کہ حالت کو اس خطرناک نہج پر پہنچانے سے بہتر ہے ہم وقت پر علاج شروع کرلیں نہ کہ شرم جان کر خاموش رہیں ۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے خیبر پختونخوا میں ایچ آئی وی ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 8ہزار 356 بالکل  بھی نہیں ہے کیونکہ کافی تعداد میں مریض نجی ہسپتالوں کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جنکا  ڈیٹا حکومت کے ساتھ شریک نہیں کیا جاتا اور مریض بھی اسی شرط پر نجی ہسپتالوں سے اپنا علاج کرواتے ہیں کہ انکی شناخت کو ظاہر نہیں کیا جائیگا۔

سید زاہد عثمان کا تعلق پشاور سے ہے۔