ضلعی سپورٹس بورڈ کا سالانہ خرچہ ایک کروڑ 80 لاکھ لیکن کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ انڈر21 اور 23 گیمز میں کروڑوں کی خُرد برد بھی کی جا رہی ہے۔ مختلف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی سپورٹس بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کے باعث مایوسی کا شکار ہیں۔
سوات میں کھیلوں کے میدان میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی اس میدان میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ فٹ بال، کرکٹ، بیڈمنٹن یہاں تک کہ اب تو تائیکوانڈو میں بھی لڑکیاں حصہ لے رہی ہیں۔ حال ہی میں سوات کی 9 سالہ عائشہ ایاز نے فجیرہ تائیکوانڈو مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا تھا جبکہ اس سے قبل وہ کانسی کا تمغہ بھی جیت چکی ہیں۔ عائشہ ایاز کی طرح سوات میں 6 سو کے قریب لڑکیاں تائیکوانڈو سیکھ رہی ہیں جبکہ دس کھلاڑی قومی و بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ بھی لے چکے ہیں۔ تائیکوانڈو سیکھنے والی لڑکیوں کے ساتھ ساتھ دیگر کھیلوں سے وابستہ کھلاڑی سپورٹس بورڈ اور دیگر متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کے باعث مایوسی کا شکار ہیں۔
تائیکوانڈو ٹیم پاکستان کے کوچ ایاز نائیک نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ضلع بھر میں 6 سو سے زائد لڑکیاں تائیکوانڈو سیکھ رہی ہیں جبکہ دس کے قریب کھلاڑی ایسے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔ تائیکوانڈو کے لئے تمام تر انتظامات ہم اپنے خرچے سے کرتے ہیں جبکہ تائیکوانڈو ایسوسی ایشن اس میں ہماری مدد کرتا ہے۔ حال ہی میں میری بیٹی عائشہ ایاز نے مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا ہے جس کے بعد دیگر لڑکیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ایاز نائیک نے مزید کہا کہ اگر حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اس کھیل کے فروغ کے لئے عملی اقدامات اٹھائے تو کھیل کے اس میدان میں سوات کی دیگر لڑکیاں بھی ملک کا نام روشن کرسکتی ہیں۔
تائیکوانڈو کی پلئیر زرشالہ نے گفتگو کے دوران کہا کہ بہت منت سماجت کے بعد گھر سے اجازت لے کر تائیکوانڈو سیکھ رہی ہوں۔ پورے ضلع میں صرف ایک کلب ہے جہاں پر ہمیں تائیکوانڈو کے کراٹے سکھائے جاتے ہیں۔ میں معاشرے میں چھپی برائیوں کے خلاف خود اٹھ کھڑی ہوئی ہوں اور اب جانتی ہوں کہ اپنا دفاع کیسے کیا جاتا ہے۔ تائیکوانڈو کے لئے سپورٹس بورڈ اور حکومت کی جانب سے ہمیں کسی قسم کی سرپرستی حاصل نہیں اور ہم اپنی مدد آپ کے تحت اس کھیل کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔
سوات میں کھیلوں کا فروغ اور سپورٹس بورڈ کا کردار
سوات میں ضلعی سپورٹس بورڈ کے کردار پر مختلف اوقات میں سوالات اٹھائے گئے ہیں جبکہ ایک ضلعی سپورٹس آفیسر کو خرد برد کرنے اور اپنے رشتہ داروں کو کھلاڑی بنا کر سری لنکا بھیجنے کے الزام میں عہدے سے ہٹایا بھی جا چکا ہے۔ ضلعی سپورٹس آفس سے ملنے والے اعداد وشمار کے مطابق آفس کا ماہانہ خرچہ چھ لاکھ ہے جو سالانہ کے حساب سے ایک کروڑ اسی لاکھ روپے بنتے ہیں۔
خیبر پختونخوا بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے صدر ظفرعلی کاکا کے مطابق صوبائی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ اور دیگر سپورٹس محکموں کا کردار صرف خانے پُر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کھیلوں کے فروغ کے لئے کوئی بھی متعلقہ ادارہ سنجیدہ نہیں۔ کھلاڑیوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے نا ہی کوچنگ صرف برائے نام ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کروڑوں روپے کی خرد برد کی ہوتی ہے۔
ٹورنامنٹس اور سپورٹس فیسٹول کے انعقاد پر کروڑوں کا زیاں
سپورٹس ڈائریکٹوریٹ سے ملنے والے ڈیٹا کے مطابق 2019 کے انڈر 23 گیمز کے لئے 14 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، یہ گیمز ضلعی سطح پر ہوئے تھے۔ سپورٹس کے ماہرین کے مطابق ان تمام گیمز پر کل ایک کروڑ 50 لاکھ روپے کا خرچہ آیا تھا جبکہ باقی رقم کا کسی کو پتہ نہیں چلا۔ سپورٹس ایسوی ایشنز کے مطابق ہر ایک گیم کے انعقاد پر پچاس ہزار روپے تک کا خرچہ آیا تھا جبکہ تمام گیمز کے مقابلوں کو ایک دن یا دو دنوں میں ختم کیا جاتا جس سے اِن کو مزید رقم کی بھی بچت ہو گئی تھی۔ حال میں انڈر21 گیمز کا انعقاد کیا گیا جس کے لئے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے 18 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مختلف کھیلوں کے ٹورنامنٹس تحصیل کی سطح پر کئے جا رہے ہیں جس کے بعد ضلعی اور صوبائی گیمز کا انعقاد کیا جائے گا۔
بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے صدر ظفر علی کاکا کے مطابق سپورٹس بورڈ کی پالیسی صوبائی سطح پر بنائی جاتی ہے جبکہ ٹورنامنٹس کا انعقاد بھی سپورٹس ڈاریکٹوریٹ کرتی ہے۔ کھیلوں کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کے لئے ٹرائلز کا انعقاد کیا جائے جبکہ ان کے لئے ٹریننگ کیمپس بھی لگائے جائیں۔ برائے نام ٹورنامنٹس کا انعقاد صرف پیسوں کا زیاں ہے اس سے کھیلوں کو فروغ نہیں ملتا۔ ٹورنامنٹ کا کم دورانیہ ضلعی سپورٹس آفس کے زیرِانتظام منعقدہ ٹورنامنٹس کو وقت سے پہلے بھی مکمل کر لیا جاتا ہے جس سے اِن کے بقایا ایام کے اخراجات بھی بچ جاتے ہیں۔
سپورٹس ایسوسی ایشن کے مطابق بیڈمنٹن کا ٹورنامنٹ تین گھنٹے میں ختم کیا جاتا ہے جبکہ ہاکی کے ٹورنامنٹ ایک دن میں ہی مکمل کر کے بچت کی جاتی ہے۔ بیڈمنٹن کے کھلاڑی اصغر خان نے گفتگو کے دوران بتایا کہ سپورٹس بورڈ کی جانب سے ایک دن میں تمام ٹورنامنٹس مکمل کر لئے جاتے ہیں جس سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہمارے لئے نہ ہی ٹریننگ سیشنز منعقد ہوتے ہیں نہ ہی دوسری سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
برائے نام ٹیمیں اور خرد برد
سوات میں مختلف گیمز میں درجنوں ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ تحصیل کی سطح پر ٹورنامنٹ ہو یا ضلعی سطح پر لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی کثیر تعداد میں شریک ہوتی ہیں۔ مختلف ٹورنامنٹس میں خرد برد کے حوالے سے ایک انکشاف یہ بھی ہوا ہے کہ چترال اور ضلع شانگلہ کی لڑکیوں کی ٹیمیں صرف کاغذات میں ہی ہوتی ہیں جبکہ میدان میں اِن ٹیموں کا نام و نشان تک نہیں ہوتا جس پر ملنے والی رقم بھی متعلقہ ادارے ہڑپ لیتے ہیں۔ سپورٹس ایسوسی ایشنز کے مطابق ایسے اضلاع موجود ہیں جہاں لڑکیوں کی ٹیمیں سرے سے موجود ہی نہیں لیکن ٹورنامنٹس میں اُن ٹیموں کے نام شامل کر لئے جاتے ہیں جس پر حکومت کی جانب سے ملنے والی رقم کو متعلقہ ادارے ہڑپ لیتے ہیں۔
ضلعی سپورٹس سربراہ کیا کہتے ہیں؟
ضلعی سپورٹس آفیسر سکندر شاہ نے گفتگو کے دوران کہا کہ ہر سال درجنوں گیمز اور ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے ہماری ذمہ داری ہوتی ہے کہ اُن ٹورنامنٹس کو بہتر انداز میں اور وقت پر مکمل کریں۔ کھلاڑیوں کے ٹرائلز اور ٹریننگ کا انعقاد سپورٹس بورڈ کی نہیں ایسوسی ایشنز کی ذمہ داری ہے۔ سالہا سال مختلف ٹورنامنٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کھلاڑیوں کی ٹریننگ خود بخود ہو جاتی ہے، ان کو میڈلز ملتے ہیں سکالرشپس ملتی ہیں اور کھلاڑیوں کو کیا چاہیے۔
سکندر شاہ نے مزید کہا کہ انڈر 21 اور 23 گیمز کا انعقاد صوبائی سطح پر کیا جاتا ہے جس کے لئے رقم کا تعین بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کرتی ہے۔ ہمیں علم نہیں ہوتا کہ کتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں۔
کھیلوں کے فروغ کے لیے اقدامات ناگزیر
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کا دوسرا دور چل رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اعلان بھی کیا تھا کہ کھیلوں کے فروغ میں خصوصی دلچسی لی جائے گی جبکہ ہر تحصیل کی سطح پر گراؤنڈز بھی بنائے جائیں گے۔ حکومت کی اپنی کوشش تو کی جا رہی ہے لیکن سپورٹس ڈائریکٹوریٹ، سپورٹس بورڈز اور دیگر متعلقہ ادارے کھیلوں کے فروغ میں ناکام اور برائے نام ٹورنامنٹس کے انعقاد پر سرکاری خزانے کے کروڑوں ضائع ہو رہے ہیں۔
کھیلوں کے ماہرین کا کہنا ہے کھیلوں کے فروغ کے لئے موثر حکمت عملی بنانے اور ہر ریجن میں سپورٹس بورڈ کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ کھلاڑیوں کے لئے ٹرائلز اور ٹریننگ کا انعقاد بھی سپورٹس بورڈ اور سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے ذمے ڈالنی چاہیے تاکہ اچھے پلئیرز سامنے آئیں، اُن کی گرومنگ ہو اور وہ آگے جا کر بہتر کارکردگی سے نہ صرف ملک کا نام روشن کریں بلکہ کھیلوں کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کریں۔