محسن بیگ نے کہا ہے کہ طالبان کو سپورٹ کرنے والے لوگوں کی محبت کا تھوڑے دنوں میں ہی بخار اتر جائے گا۔ ہمیں اپنے ملک کی فکر کرنی چاہیے۔ پاکستان کی جو حالت کر دی گئی ہے اس کا شاید کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ عوام کی نمائندگی کی بات کرنے والوں کو ان کے دکھ ، درد اور تکلیفوں کا ادارک ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آئے روز عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادا جا رہا ہے۔ عام شہری سروائیو ہی نہیں کر پا رہا اور پوری دنیا کو بھاشن دیئے جا رہے ہیں۔ خان صاحب! باتیں تو اچھی کر لیتے ہیں لیکن انھیں عوام کے بنیادی مسائل ہی کا پتا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کبھی ایسا ماحول ہی نہیں دیکھا۔
یہ بات انہوں نے نیا دور ٹی وی کے پروگرام '' خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہی، ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں عمران خان جو کچھ کہتے رہے وہ آج ان کے گلے پڑا ہوا ہے۔ اگر ہم انھیں یہ باتیں یاد کرا دیں تو ہمارے خلاف ہی شروع ہو جاتے ہیں، ان کا یوتھیا گروپ سوشل میڈیا پر غلیظ قسم کی باتیں لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ انھیں دیکھنا ہوگا کہ وہ پوری دنیا کے لیڈر نہیں ہیں۔ شروع میں آپ نے کہتے رہے کہ ہماری مدد کردو پھر اکڑنا بھی شروع کر دیا۔
پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے تمکنت کریم نے کہا کہ پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹرز اور حکمرانوں نے جو کچھ کیا، اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ یہاں بھگت صرف عوام رہے ہیں۔ خان صاحب اور ان کے وزرا کو دنیا کی فکر رہتی ہے لیکن اپنے گھر کو وہ نہیں دیکھنا چاہتے، امریکا پر تو الزام تھونپتے ہیں لیکن فوجی ڈکٹیٹرز نے جو ملک کیساتھ کیا وہ نہیں بتاتے۔
تمکنت کریم نے کہا کہ سٹیبلشمنٹ، عمران خان اور اپوزیشن کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے، ایک جانب عمران خان کو کنٹونمنٹ کے الیکشن دکھاتی ہے تو اپوزیشن کو عمران خان کا کوئی جلوہ، یہ فی الحال کھیل چل رہا ہے۔
رضا رومی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جیو اکنامکس کا ذکر کرتے ہوئے مختلف تقاریر میں اپنا ایک وژن پیش کیا ہوا ہے لیکن لگتا ہے کہ خان صاحب اس سے متفق نہیں ہیں۔ آرمی چیف نے انڈیا سے تعلقات کو نارمل کرنے اور اپنے مغربی اور مشرقی سرحدوں کو ٹھنڈا رکھنے کی بات کی لیکن اس کے مقابلے میں عمران خان ایک مستقل مختلف لائن لئے ہوئے ہیں، یہ وہی صورتحال ہے جو عثمان بزدار پر سٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان ہے۔